تحریر: عبد القاسم رضوی امجدی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت نوری دارالعلوم نور الاسلام قلم نوری مہاراشٹر
رُکن: تحریک فروغِ اِسلام شعبہ نشر اشاعت دہلی
موبائل نمبر:7000611508/9168169385
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہر انسان کے لیے نمونہ ہے، زندگی کے ہر شعبہ اور گوشہ میں اس سے رہنمائی اور ہدایت ملتی ہے، گھر یلو معاملات ہوں یا سماج سےتعلق رکھنے والے امور ہوں، آپ کی حیات طیبہ سبھی کے لیے روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے جس سے زندگی کے لیے صحیح راستہ پر چلنےوالے اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مقدسہ کو بہت بلند بنایا ہے۔۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی روتا آتا ہے تو وہ ہنستا جاتا ہے،کوئی غمزدہ آتا ہے تو اپنے چہرے پر مسکراہٹ لیکر جاتا ہے۔کوئی غُصہ میں آتا ہے تو اپنے دِل کو موم کی طرح نرم کر کے جاتا ہے،کوئی دشمن آتا تو وہ دوست بن کے جاتا ہے، اور کوئی بے نیام تلوار لیکر آپ کو قتل کرنے کے اِرادے سے آتا ہے تو وہ آپ کے اخلاق کریمہ کے سمندر میں ڈوب کر دامن اِسلام سے وابستہ ہو جاتا ہے،
یہی وجہ ہے کہ
ایک مشہور مصنف”MYCLEHEART” جب غیر جانب داری سے غور کر تا ہےتو عیسائی ہونے کے باوجود اپنی کتاب "THE100″ میں دنیا کی 100 اثر انداز ہستیوں میں حضرت محمد مصطفےٰصلی الله علیہ وسلم کو پہلے نمبر پر رکھتا ہے اور ایمان داری سے یہ کہتا ہے کہ” تاریخ میں وہ واحد انسان ہیں، جو مذہبی اور دنیاوی دونوں سطحوں پر سب سے زیادہ کامیاب رہے،، کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کہا تو کسی نے صادق اور دوستوں کو تو چھوڑ ہی دیجئے آپ کے دشمنوں کو بھی آپ پراتنا یقین تھا کہ دشمنی کے باوجود اپنی امانتیں آپ ہی کے پاس رکھوا تے تھے،
اسی طرح ایک انگریز عورت "ANNE BESENT ” آپ کے اخلاق کریمہ کے متعلق کہتی ہے، ” دُنیا کی نظروں میں ہیرو بننا آسان ہے، لیکن اپنی بیوی، اپنی بیٹی ، اپنے داماد اور قریبی رشتہ داروں کی نظروں میں ممتاز مرتبہ حاصل کرنا واقعی میں ایک نبی ہی کے اعلی اوصاف میں سے ہیں، اور یہ ایک ایسی جیت ہے جو دیگر متاز افراد کے بھی حصہ میں نہیں آئی‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی باری تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
” وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ "
” اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں "(یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
ایک جگہ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں” انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق”
” مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں”
اسی کو سراہتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے اخلاق حسنہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:” کان خلقہ القرآن”
” آپ کا سارا خُلق قرآن ہی ہے”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلق عظیم و اسوہ حسنہ اس قدر سبق آموز ہے کہ جس سے ساری انسانیت متاثر ہے،
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو کفار کے مظالم کاپتہ چلتا ہے کہ صحابی رسول حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو ہر روز غلام خانہ سے نکال کر دہکتی ریت پر لٹا دیا جاتا اور آپ کے سینے پر تپتے ہوئے گرم پتھر رکھ دیے جاتے ،جس کی حرارت آپ کے چربی کو اُبال کر رکھ دیتی،آپ کو اتنے کوڑے مارے جاتے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ہر روز مرنے کے قریب ہو جاتے،حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی یہی حال تھا کہ کفار مکہ حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کے کپڑے اتار کر دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاتے اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے تاکہ کروٹ بھی نہ بدل سکیں اسی طرح زخموں سے خون اور پیپ رس رس کر اُن انگاروں کو ٹھنڈا کر دیتی تھی۔صرف صحابہ ہی
نہیں بلکہ کفار مکہ نے جانِ عالم انیس بے کساں چارہ سازہ درد منداں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اذیتیں پہنچائی،
اُنہیں دشمنان اسلام کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، اُنہیں کے اشارہ ابرو پر کاشانہ نبوی میں برتنوں کو خراب کیا گیا ، پکتی ہوئی ہنڈیاں کو اوندھا کیا گیا ، خدا تعالیٰ کے حلال کردہ رزق میں حرام پلیدی ڈال دی گئی ، آپ کے جسم مبارک پر اونٹوں کے اوجھڑی ڈالی گئی، گرد وغبار سے جسم اور لباس مبارک آلودہ کرنے کی بیباکانہ جسارت بھی کی گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں یہ صورتحال دیکھ دل گیر ہوئیں اور ان کی زبان مبارک سے بددعائیہ جملے نکلے تو آپ نے فرمایا: لاتبکی یابُنیۃ فان اللہ مانع اباک۔ اے بیٹی دلگیر نہ ہو تیرے باپ کا اللہ خود محافظ ہے۔ گویا ظلم ، ستم ، اذیت ، تکلیف ، ذہنی کوفت اور جسمانی تشدد جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی برتاؤ آپ سے برتا گیا، لیکن ان سب کچھ کے باوجود آپ کے صبر وتحمل ،عفو و درگزر ، ضبط و برداشت اور استقلال میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی اور آج تک تاریخ کا ورق ورق آپ کے رحم و کرم ، عزیمت، ثابت قدمی اخلاق کریمانہ کی داستانیں سنا رہا ہے،
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت کی غمخواری کی، اپنے ازلی وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا، نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کرکے بھائی چارگی اور الفت ومحبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار فوج آپ کے ساتھ ہے، صحابہ اعلان کرتے ہیں ”الیوم یوم الملحمة“ آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے، آج ہم اپنے دشمنوں کے گوشت کے قیمے بنائیں گے، آج ہم ان کی کھوپڑیوں کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہ جوالہ بن کر خرمن کفار کو جلاکر بھسم کردیں گے اور گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔
محترم قارئین : آپ غور فرمائیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تبلیغِ اِسلام کے ہر راہ میں رخنہ ڈالتے رہے وہ قوم قابلِ معافی ہے۔؟؟ تو اِس کا صرف ایک ہی منفی جواب ہوگا ” نہیں ہر گز نہیں!
لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہوا، رحمت نبوی جوش میں آئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہے ” لاتثریب علیکم الیوم واذهبوا انتم الطلقاء "
” کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائےگا ” یہ تھا آپ کا اخلاق کریمانہ، یہ تھا آ پ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ، جس کی مثال سے دنیا قاصر ہے۔
ابتداء اسلام میں جب مکہ کے بچے بچے دشمنی کرنے سے نہ بچے تو آپ نے مکہ سے باہر کی طرف نظر دوڑائی اور طائف کی طرف سفر کا ارارہ فرمایا۔
اب آقا صلی الله عليہ وسلم کے سفرطائف اور اس میں پیش آمدہ مصائب پر نظر ڈالیں تو آپ کومحسوس ہوگا کہ واقعہ طائف میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صبر و استقامت کا عملی نمونہ پیش کیا ہے وہ یقینا مصیبت زدگان زمانہ کے لیے بہترین مشعل راہ ہے۔ جو بھی بھوکا پیاسا ستایا ہوا اور دھتکارا ہوا شخص واقعات طائف پر غور کرے گا، اس کو اپنی پریشانی کم ہوتی نظر آئے گی ۔ اور جب آقا صلی الله علیہ وسلم کے صبر وسکون اور استقلال و استقامت پر نگاہ ڈالے گا تو اس کو اپنے دل میں سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کا جذ بہ ابھرتا ہوا محسوس ہوگا۔ بیشک رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم – طائف میں دس دنوں تک لوگوں کے گھروں میں جا جا کر دین کی دعوت پیش کرتے رہے لیکن کسی نے بھی ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ الٹا ان پر جور و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے، یہاں تک کہ آقا صلی الله علیہ وسلم
خون سے لہولہان ہو گئے لیکن ان حالات میں بھی زبان مبارک سے نہ تو سب وشتم کرتے ہیں، نہ ہی کسی کے لئے بد دعاء،بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں نہایت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ مدد و استقامت طلب کرتے ہیں ،اور گم گشتہ راہوں کی ہدایت چاہتے ہیں ۔ اسی اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیں عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو
ہمارے لیے نجات و کامیابی کا ضامن ہے۔
بیشک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے، جسے آج ہمیں اور آپ کو اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان ہوجائے گا۔