اصلاح معاشرہ

بزرگوں کا احترام

ازقلم: ریاض فردوسی، پٹنہ

اور آپ کے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔اگرآپ کے پاس ان دونوں میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں توان دونوں کو اُف تک نہ کہواور نہ ہی ان کوجھڑکو اوران سے عزت والی بات کرو۔اوران کے لیے تواضع کا بازو رحم دلی سے جھکائے ر کھو اورکہوکہ اے میرے رب!ان دونوں پررحم فرماجیسے اُنہوں نے مجھے بچپن میں پالاتھا(قرآن۔بنی اسرائیل۔آیت۔23-24)

آیت کریمہ کے متعلق مختصر باتیں!

یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا ، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری ، اخلاقی ، تمدنی ، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔
اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو،بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو،اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلی تسلیم نہ کرو۔یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ،اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے،بلکہ اس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگ بنیاد بھی ہے،جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا قائم کیا۔اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے۔

وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
کے متعلق اہم نکات !

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
وہ ہم میں سے نہیں ہے جو نوجوان بچوں پر رحم نہیں کرتا اور نہ بزرگوں کا اعزاز کرتا ہے(جامع ترمذی،حدیث الاسلامی)
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا!میری امت میں سے نہیں جو مسلمانوں کے بڑے کی تعظیم اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور عالم کا حق نہ پہچانے(فتاوی رضویہ)
بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو،تم جنّت میں میری رفاقت پالو گے(شعب الایمان،ج7،ص458،حدیث:1098،بیروت)دوسری روایت میں ہے: تم اپنی مجالس کو بوڑھے کی عمر،عالم کے علم اور سلطان کے عہدے کی وجہ سے کشادہ کردیا کرو
(کنزا لعمال،ج9،ص66،حدیث25495،بیروت)

حضرت امام ابنِ شہاب زہری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا امام احسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی والدہ کے بہت فرماں بردار تھے،مگر اس کے باوجود اپنی والدہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ کھانا تناول نہیں فرماتے تھے۔کسی نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا!میں امّی جان کے ساتھ اس خوف کی وجہ سے کھانا نہیں کھاتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کسی چیزپر ان کی نظر پہلے پڑجائے اور انجانے میں وہ چیز ان سے پہلے کھاکر ان کا نافرمان ہو جاؤں(بر الوالدین لابن جوزی،ص53،رقم :66بیروت)

ہمارے معاشرے میں اپنے والدین اور بزرگ کی دیکھ بھال کا فرض،ان کی جانوں کے اس سب سے مشکل وقت میں عزت،نعمت اور عظیم روحانی ترقی کے لئے ایک موقع سمجھا جاتا ہے۔اسلام میں یہ کافی نہیں ہے کہ ہم صرف ہمارے بزرگوں کے لئے خاص طور پر اپنے والدین کے لئے دعا کریں، لیکن ہمیں حد تک رحم کرنی چاہئے،یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم بے پناہ بچے تھے تو انھوں نے خود سے زیادہ ہمیں ترجیح دی۔جب یہ لوگ عمر کی انتہا تک پہنچ جائیں،تو ان سے رحم اور عظمت کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے۔اسلام میں بزرگ کی خدمت کرتے ہوئے، خاص طور پر( والدین کی)نماز کے بعد اہم عبادت میں شمار ہے،اور یہ ان کی تعظیم و توقیر کرنے کا حکم ہے۔یہ کسی بھی سختی کا اظہار کریں ان سے کوئ بھی ناگزیر الفاظ استعمال نہ کئے جائے(جب کہ اولاد کے کوئ غلتی نہ ہو) حالت ضعیفی میں کمزوری اور ناپسندگی بڑھی ہوتی ہے۔ وہ اولاد سے اپنی خاص توجہ اور دیکھ بھال کی ذمہ داری چاہتے ہیں۔لیکن ہم اور ہمارا رویہ؟ الله رحم کریں۔
آج کی نسل اور خاص کر بچے والدین کو بات بات پر ڈانٹنے،جھڑکنے اور بلند آواز سے بات کرنے میں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے،اگر کوئ نصیحت کی بات وہ کہتے ہیں اور ان کے دوست سن لیں تو دوستوں کی محفل میں ان کی طبیعت خراب یا دماغ خراب تک ثابت کر دیتے ہیں۔ماں باپ کسی چیز کے متعلق دو سے تین مرتبہ پوچھ لیں تو بھنویں تن جاتی ہیں،ناک،منہ سکر جاتے ہیں،مگر یہی اولاد بچپن میں والدین سے جب ہکلاتے ہوئے کسی چیز کو بار بار پوچھتا تھا تو والدین خوشی خوشی بتاتے تھے۔ماں باپ کے لۓ اچھے کھانے پینے کا انتظام کر دینا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ موت کی آخری ہچکی تک ان کا ادب بجا لانا انتہائی ضروری ہے۔مگر آج مساجد و مدارس کی چوکھٹ پر، گلی محلوں میں بھیک مانگتے والدین ہر روز دیکھے جا سکتے ہیں۔ کوئی پیٹ بھرنے کے لۓ ایک وقت کا کھانا دے دیتا ہے توکوئی جھڑک کر،ڈانٹ کر بھگا دیتا ہے۔

آخر میں!
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہیں :مَنْ لَّااَدَبَ لَہٗ لَا عِلْمَ لَہٗ یعنی جو بے ادب ہو،وہ علم سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا(المنبہات ،ص۔13)
امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کرتے ہوئے ایک قریشی سے فرمایا: مسجد ِ نبوی میں چلے جاؤ ،وہاں ایک حلقے میں لوگ ہمہ تن گوش ہو کریوں بیٹھے ہوں گے گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں ،جان لینا یہی حضرت سیدنا امام ابو عبد اللہ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس ہے۔نیز اس حلقے میں مذاق مسخری نام کی کوئی شے نہ ہوگی(تاریخ ابنِ عساکر،ج14،ص179،ملخصاً بیروت)
ادب ہی کی وجہ سے سیدنا حضرت جبرئیل علیہ السلام ’’سیدالملائکہ‘‘ بنے اور بے ادبی کی وجہ سے معلم الملائکہ ’’ابلیس‘‘ بنا۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے