ازقلم: محمد زاہد رضا، دھنباد
متعلم،جامعہ اشرفیہ،مبارک پور
(رکن:مجلس علماے جھارکھنڈ)
روز بروز فرقہ پرست طاقتیں اور ہندو تنظیموں کے تعصب پرست اور دریدہ دہن لیڈران ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ سرگرمیاں انجام دے کر اپنی گرتی سیاسی کیریر کو اوج ثریا پر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔
گزشتہ روز "ٹائمس ناؤ”کے چینل پر بی جے پی کی خاتون قومی ترجمان نپور شرما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر حضرت عائشہ کے حوالے سے نازیبا کلمات استعمال کیا اور قرآن کریم کا مذاق اڑا کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھوس پہنچایا۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی خبیثوں(وسیم رضوی،یتی نرسمہانند سوامی،کملیش تواری وغیرہ) نے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دیے ہیں لیکن کبھی بھی ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں گئی،کیوں کہ ان تمام اشتعال انگیزوں کو بی جے پی کے منتخب نمائندوں اور لیڈروں کی کھلی یا اندرونی حمایت حاصل ہے،مزید برآں ایں کہ ان لوگوں کے حق میں تقریبات سجائے گئے ان کے گلے میں پھولوں کی ہار ڈال کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی،جن کی وجہ سے ان کے حوصلے بہت بلند ہیں،یہ لوگ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے،مذہبی برادریوں کے درمیان دشمنی،نفرت اور تشدد پیدا کرنے مصروف ہیں جو سیکولر ملک کے تانے بانے کے خلاف ہے۔
اگر کوئی مسلم نوجوان فیس بک پر لیچی یا شیولنگ کی تصویر شیئر کرتا ہے تو پولیس فوراً اسے یہ کہتے ہوئے گرفتار کر لیتی ہے کہ "اس سے اکثریت طبقہ کو تکلیف پہنچی ہے”۔وہیں دوسری طرف کھلے عام نیشنل چینل پر بدنام زمانہ نپور شرما نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی،مذہب اسلام کامذاق اڑایا،مسلمانوں کی دل آزاری کی بعدہ دہلی پولیس نے ابھی تک اس بدزبان و بدکار عورت کو گرفتار نہیں کیا۔پولیس کے اس دوہرے رویے سے مسلمانوں کے اندر کافی غم و غصہ پایا جارہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ ان اشتعال انگیزیوں،فتنہ پروروں اور انتہا پسندوں کے خلاف کبھی بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹویٹ بھی نہیں کیا جو تمام ہندوستانیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعوی کرتے ہیں،سب کا ساتھ،سب کا وکاس،سب کا وشواس کا نعرہ لگاتے ہیں،یہاں پر مودی حکومت کو یہ کرنا چاہیے تھا کہ جس وقت نپور شرما نے نفرت انگیز بیان دیا تھا اسی وقت اس کے خلاف سخت کارروائی کرتی یا فوراً اسے اپنی پارٹی سے برخواست کر کے اپنی پارٹی کو نفرتی اور زہریلے کیڑے سے صاف کرتی لیکن مودی حکومت نے ایسا نہیں کیا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں بی جے پی بھی ان کی حمایت کر رہی ہے اور قومی یکجہتی کو ختم کر رہی ہے ۔
اگر کوئی شخص ہمارےوالدین،بھائی،بہن،اساتذے کرام،پیران عظام کو گالی دیتا ہے،یا ان کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے تو ہم فوراً اس کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہیں، ان سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور معاملہ زد و کوب تک پہنچ جاتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی ہماری زمینیں،مکان،عبادت گاہیں ہڑپنے کی کوشش کرتا ہے یا ان چیزوں پر جھوٹا دعوی پیش کرتا ہے تو ہم پولیس اسٹیشن سے لے کر کورٹ تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی زمینیں اور مکان کو پچانے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
اسی طرح جب شہریت ترمیمی بل لایا گیا تھا تو اس وقت پورے ملک میں اس سیاہ بل کے خلاف زوردار احتجاج کیا گیا تھا اور حکومت ہند سے اس سیاہ بل کو واپس لینے کا پرزور مطالبہ کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کئی لوگوں کے خلاف حکومت نے سخت کارروائی کی،کئی کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں اور ابھی بھی بہت سے بھائی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی گزار رہے ہیں،کتنے کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر اسے مسمار کر دیا گیا، لیکن تین سال گزرنے کے بعد بھی سپریم کورٹ کو ابھی تک سی،اے اے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواست کی مناسب سماعت کے لیے وقت نہیں ملا ہے۔
خیر:جب ہم اپنی ذات،اپنے والدین،اپنے اساتذے کرام اور پیران عظام کے خلاف ایک جملہ برداشت نہیں کرسکتے، تو پھر ہم کیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت کریں گے؟ کیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات سنیں گے؟جن کے بارے میں حدیث قدسی میں فرمایا گیا: کہ اے محبوب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان و زمین، جنات اور فرشتوں کو پیدا نہ فرماتا۔(جواہر البحار،ج ٣،ص ٤٢)اس رسول کی شان میں کیسے گستاخی برداشت کریں گے جن کی وجہ سے پچیوں کو ایک نئی زندگی ملی، بیوہ عورتوں کو عزت و وقار کا مقام ملا،برائیوں کا خاتمہ ہوا، ملک عرب میں کفر و شرک کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوا۔ مزید ایں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ،اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری شریف،ج ١،ص ١٧)
حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم(گستاخی) کے بعد امت مسلمہ کی بقا و زندہ رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے”؟(الشفا بحقوق المصطفی،ج ٢)
اس لیے میں اپنے تمام اسلامی بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کروں گا کہ آپ غلامان مصطفی ہونے کا ثبوت پیش کر کے تحریری،تقریری جس شکل میں ہو گستاخان رسول کے خلاف حکومت ہند سے سخت کارروائی کا مطالبہ کریں اور پارلیمنٹ میں ان لوگوں کے خلاف سخت بل پاس کرانے کی اپیل کریں تاکہ دوبارہ کوئی بھی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے عزت و حرم
ت رسالت مآ
ب(صلی اللہ علیہ وسلم) سمجھنے اور حضور کے قدموں میں سب کچھ قربان کرنے کی توفیق و رفیق عطا فرماے۔آمین
زکات اچھی،حج اچھا،روزہ اچھا اور نماز اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
(مولانا ظفر علی خان)