تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
عام طور پر مخلوط تعلیم,مخلوط ملازمت اور مخلوط بود وباش کے سبب غیر قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں سے تعلقات ہو جاتے ہیں۔یہ ایک فطری امر ہے۔
اگر غیر مذہب کے لڑکوں اور لڑکیوں سے شادی بھی ہو جائے تو یہ نکاح صحیح نہیں اور یہ زناکاری اور بدکاری ہے۔
اس کے سد باب کا یہی طریقہ ہے کہ ایسے جوڑوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے اور ایسی شادیوں کو معیوب سمجھا جائے۔
فلمی دنیا اور اہل سیاست سے یہ فیشن شروع ہوا۔رفتہ رفتہ عام طبقات تک یہ برائی پہنچ گئی۔
اسکول وکالج,ملازمت گاہوں اور گاوں محلہ میں یکجا رہنے کے سبب دوستی ہوتی ہے اور ایسے دوستوں کو گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے مہذب نام سے یاد کیا جاتا ہے۔دوستی کو پیار اور محبت کا خوشنما لقب دیا جاتا ہے,حالاں کہ غیر محرم سے ایسی دوستی ہی جائز نہیں۔
کچھ برائیاں موبائل کے سبب بھی جنم لے رہی ہیں۔اس کے ذریعہ ایک دوسرے سے تعلقات ہو جاتے ہیں اور پروان چڑھ کر کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔
طوائف خانوں میں جو جسم فروش عورتیں رہتی ہیں,وہ اپنے روم میں چھپ کر بدکاری کراتی ہیں,لیکن گرل فرینڈ اس سے بھی بدتر ہوتی ہے,وہ جہاں تہاں ہم آغوش ہو جاتی ہے۔
عہد حاضر میں ماں باپ فیشن پرستی کے چکر میں ان برائیوں کو قبول کر لیتے ہیں۔اپنی کنواری لڑکیوں کو اس کے بوائے فرینڈ سے ملنے جلنے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔
ایسے غلط امور کے ازالہ کی ایک صورت یہی نظر آتی ہے کہ علما کے ساتھ عوام بھی آئیں اور سب مل جل کر مٹنگیں کریں اور اپنے اپنے گھریلو ماحول کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
گاوں و محلہ کے ذمہ دار لوگ اس جانب توجہ دیں اور ہر محلے میں علما کی سرپرستی میں مٹنگیں ہوں۔جلسوں اور مسجدوں میں تقاریر سن کر بھی لوگ ان سنی کردیتے ہیں۔اس لئے اہل محلہ کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت ہونی چاہئے۔
یہ میری تجویز ہے۔ارباب عقل وخرد غور کریں اور ہر گاؤں,شہر میں روک تھام کی کوشش کریں,ورنہ پانی ابھی بھی سر سے اونچا جا رہا ہے۔چند سالوں بعد سیلاب آ جانے کا خطرہ ہے۔