از قلم: ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری
پاکستان
سرکار دوعالم "صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم” کی ولادت مبارکہ سے پہلے عرب کی حالت بد سے بدتر تھی۔ جہالت کے اندھیروں میں وہ غرق تھے۔ جہالت ہی نے بُت پرستی جنم دی تھی۔ بُت پرستی کی لعنت نے ان کے انسانی دل و دماغ پر قابض ہوکر ان کو تو ہم پرست بنا دیا تھا۔ یہ لوگ پتھر ، چاند ، ستارے ، سورج اور آگ وغیرہ کو اپنا معبود سمجھتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے بنے ہوئے پتھروں کی عبادت کرتے تھے۔ اسی کو اپنا رازق مانتے تھے۔ ہر چیز کا خالق انہی بُتوں کو سمجھتے تھے۔
ان کے عقائد تو دن بدن بگڑتے جارہے تھے لیکن عقائد کے ساتھ ساتھ ان کے افعال و اعمال بھی بے حد خراب ہوتے جارہے تھے۔ قتل و غارت گری ، شراب نوشی ، جوّا ، زناکاری ، لواطت ، عورتوں کو زندہ دفن کرنا ، فُحش گوئی ، گالی گلوچ ، بد اخلاقی ، الغرض کون سا ایسا گندہ فعل تھا؟ جو ان میں نہ تھا.ان کو جہالت سے نکالنے کیلئے اللہ عزوجل نے اپنے پیارے بندے "حضرت محمد ” (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کو پیدا فرما کر اس امتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا۔
ایسی ہستی کو اللہ عزوجل نے پیدا فرمایا کہ جنہوں نے ان کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کا راستہ دیکھایا۔ بُت پرستی سے نکال کر معبودِ حقیقی کی طرف دعوت دی۔ جنہوں نے اس دعوت کو قبول کیا وہ شخص کامیاب و کامران ہوگیا. اور جنہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا وہ ناکام ہوگیے۔ اب بھی جو شخص کامیاب ہونا چاہ رہا ہے وہ ایسی ذات کا محتاج ہے جو کامل و اکمل ہو۔ وہ ذات حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے۔
یہ ایسی ذات ہے جن کہ بارے میں ایک عاشق لکھتے ہیں کہ "وہ کمالِ حسن حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں”
شرح:: آقا دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے کمال کا حسن عطا فرمایا ہے کہ آپ کے حسن میں عیب تو کیا عیب عیب کا گمان بھی نہیں ہوسکتا۔ دنیا کا وہ کونسا پھول ہے جس کے ساتھ کانٹا نہ ہو۔ مگر مدینے کا پھول ہر قسم کے کانٹے سے محفوظ اور ہر طرح کا کانٹا آپ سے دور ہے اور ہر شمع کے ساتھ دھوئیں کا ہونا لازم ہے۔ لیکن آپ ایسی شمع رسالت ہیں کہ جہاں دھوئیں کا نام و نشان نہیں ہے۔
اس شعر میں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والیہ وسلم کے حسن کی رعنائیوں کو بیان کیا گیا۔ جس کو صحابہ کرام علیھم الرضوان یوں بیان کرتے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جیسا حسین و جمیل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد کوئ دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ نے خود کئ مواقع پہ فرمایا کہ تم میں کون میری طرح ہو سکتا ہے۔ (شرح حدائق بخشش)
لہذا!! اس ذات کی سیرت سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتے ہیں۔ ورنہ اس ذات کے سوائے کامیابی کیلئے کوئ راستہ نہیں ہے۔ اسلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے واقفیت بے حد ضروری اور لازم ہے۔
سیرت رسول کی ضرورت پر تو بہت سارے دلائل ہیں۔ لیکن میں صرف "6” دلائل بیان کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔
1️⃣ انسان کے وجود کی اصلاح کا ایک اہم ترین طریقہ یہ بھی ہے کہ
کسی ایسی شخصیت کو پیش کیا جائے جن کا ہر قول و فعل انسان کی اصلاح کا ذریعہ بن سکے۔
یہ کمالِ صرف و صرف حضور ( صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ) کی ذات میں ہے۔ جس شخص نے اِن کی سیرت کو اپنا لیا۔اُس کا سر فخر سے بلند ہے کہ انہوں نے اپنے آقا و مولی (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو اپنا لیا ہے۔ ورنہ پھر دونوں جہانوں میں رسوائ مقدر بنے گی۔
2️⃣ ہر انسان سکون و چین کا متلاشی رہتا ہے۔ اور سکون پانے کیلئے ایک اہم و کامل طریقہ یہ ہے کہ انسان نبی پاک (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے وابستہ ہوجائے۔ اور وابستہ ہونے کیلئے اُس شخصیت کی سیرت کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ تاکہ بندہ اس شخصیت کی سیرت پہ گامزن ہوکر سکون و چین پا سکے۔ حقیقت یہی ہے کہ جس نے بھی اس ذات کی سیرت کی پیروی کی ہے وہ بندہ چین و سکون میں ہے۔
3️⃣ حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہدایت و نجات پانے کا ذریعہ ہے۔ تو اس کی سیرت کو اپنانا ضروری ہے۔ تاکہ اس ذات کی خصوصی نظرِ کرم ہو۔ اب جس قدر بندہ اس ذات کی سیرت کو زیادہ اپنانے کی کوشش کرے گا اسی قدر اس ذات کی خصوصی نظر کرم اس بندے پہ ہوگی۔
4️⃣ اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو مسلمانوں کیلئے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔
قوله تعالی کا فرمان ہے کہ قوله تعالی ” لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رِسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَة” (سورہ احزاب: 33:21) ترجمہ: بے شک تمہارے لئے رسول اللہ کی مقدس ذات میں زندگی کا حسین ترین نمونہ ہے۔
5️⃣ انہی کی سیرت کی پیروی میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ترقی کا راز پوشیدہ رکھا ہے۔ ان کی سیرت کی پیروی کے بغیر ترقی نہ ملی ہے نہ ملے گی۔ ( لیکن افسوس کہ انسان ترقی کا راز کسی اور جگہ تلاش کررہا ہے)
6️⃣ اگر مسلمان اغیار کی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں تو سرکار (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کی غلامی اختیار کریں۔ اور تمام افعال و اقوال میں آپ کی اتباع کریں۔
👈 جس معاشرے اور ادارے میں سیرت کی اہمیت نہیں ہے وہ معاشرہ و ادارہ ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا۔ جی ہاں:: بالکل ایسا ہی ہے جس نے بھی اس ذات کی سیرت کو اہمیت نہ دی وہ کبھی بھی ترقی نہیں پا سکتا۔ اگر آپ کو ترقی چاہیے تو اس ذات کے دامن سے وابستہ ہوجا۔ لہذا!! سیرتِ رسول کو اپنے اپر لازم کرلو۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَل آپ اس دنیا و اُس دنیا میں کامیابی سے ہم کنار ہونگے۔