مذہبی مضامین

صبر اور نماز

تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ 9968012976

اے ایمان والو! صبرا ورنماز کے ساتھ مدد طلب کرو،یقینا اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے(سورہ البقرۃ۔آیت۔153)
مومن کا کام ہے کہ اللہ کی مرضی پر راضی رہ کر صبر کرے، حتی کہ میاں بیوی کے درمیان بھی اگر کچھ تلخی پیدا ہو جائے تو بھی اس کا شکوہ کسی سے نہ کرے،شکوہ کیا تو صبر کیسا؟
صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کسی تکلیف یا صدمہ پر روئے نہیں، صدمے کی بات پر غم کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے،جو رونا بے اختیار آجائے وہ بھی بے صبری میں داخل نہیں،البتہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ صدمہ، مصیبت اور پریشانی کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی شکایت نہ کرے۔اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر انسان ذہنی طور پر راضی و خوش قائم رہے۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر زخم کا یا کسی مرض کو دور کرنے کے لئے آپریشن کرتا ہے توانسان کو شدت کا درد اور بے انتہاتکلیف ہوتی ہے اور بعض اوقات درد کی وجہ سے انسان چلا اٹھتا ہے، لیکن اسے ڈاکٹر سے کوء شکوہ شکایت نہیں ہوتی،کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ڈاکٹر جو کچھ کررہا ہے اس کی ہمدردی سے اورمرض کو دور کرنے کی خاطر کررہا ہے۔مذہب اسلام کے قوانین پر قائم رہنا کوئی پھُولوں کا سیز نہیں ہے،بلکہ یہ ایک عظیم الشّان اور پُر خطر راستہ ہے،جس کا بار اُٹھانے کے ساتھ ہی ہم پر ہر قسم کی مصیبت اور پریشانیوں کی موسلادھار بارش ہوتی ہے، سخت آزمائشوں میں ڈالا جاتاہے،زندگی دوبھر کر دی جاتی ہے، طرح طرح کے نقصانات اُٹھانے پڑتیں ہیں اوربندہ جب صبر و شکر اور عزم محکم و استقلال کے ساتھ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں بڑھتے چلے جاتا ہے،تب اس پر عنایات اور آخرت میں انعامات کی بارش ہوگی(ان شاء اللہ آمین) امت محمدیہ ﷺ ہونے کا فرض ادا کرنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے،
1۔ صبر کی صفت اپنے اندر پیدا کریں۔2۔نماز کے صالح و پاکیزہ عمل سے خود کو مضبوط کریں۔
قرآنی اصطلاح میں صبر بہت وسیع معنی اور مفہوم کا حامل ہے۔
1۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استقامت کا مظاہرہ،
2۔ گناہوں کے لئے اپنی خواہشات کو دبانا،
3۔تکلیفوں کو برداشت کرنا،
4۔سرحدوں کی حفاظت میں ڈٹے رہنا،
5۔اپنے صحیح اور صالح نظریات پر قائم و دائم رہنا۔
کتنا پیارا اور اطمینان بخش وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔اسرائیل امریکہ کی شہ پر برسہا برس سے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے،بس اسے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے،ہمارے ملک ہندوستان میں بجرنگ دل اور ان جیسی دہشت گرد جماعتیں حکومت کے اشاروں پر بے گناہ مسلمانوں کو قتل،مارپیٹ،جبراََزناکاری،گھر بارلوٹ لینا،اور طرح طرح کے مظالم ٹھاتی ہیں،بس اسے یہاں کی حکومت کی شہ حاصل ہے۔اے قوم مسلم !یہ چند روزہ زندگی کی طاقت کے زور پر اتنی جسارتیں ہیں ،تو اس ذات لامکاں کی قوت اور طاقت کو کیوں کر کم جان رہے ہو؟
اللہ وحدہ لا شریک مسلمانوں سے صاف لفظوں میں وعدہ کر رہا ہے تو کیا مسلمانوں کو اپنے رب کے وعدے پر اعتبار نہیں؟دنیا کی چند روزہ زندگی میں اگر کسی کی دوستی کسی وزیر ،ایس پی،کلیکٹر،وزیراعلیٰ،وزیراعظم،یا اسپیکٹر سے ہو جائے تو انسان سب کوبتاتا پھرتا ہے کہ میرے تعلق فلاں صاحب سے ہیں،ہر جگہ ذکر کرکے اپنی شخصیت کا رعب دکھاتا پھرتاہے،مسلمانوں کا کیا ایمان ہوگیا ہے کہ رب کائنات صاف صاف اعلان کر رہا ہے کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں تو پھر کیسی مایوسی ؟کیوں دل آزار ہو؟ کیوں غم واندوہ کے سمندر میں ڈوبے رہیں؟کیو ں اپنی بے بسی،ناتوانی کاروناغیروں سامنے کریں؟اگر محلے میں کسی غنڈہ یا بدمعاش سے تعلق ہو جائے توآدمی اتراتا پھرتا ہے کہ پورے محلے میں میری پکڑ ہے،فلاںبدمعاش مجھے بہت مانتا ہے،اے قوم مسلم ! اس ذات یکتا ویگانہ بے انتہا مالک وجبروت پر تمہیں یقین کامل کیوں نہیںہے؟غنڈہ اور بدمعاش کی حکومت تو محلہ،شہر ،ضلع،اور ملکی پیمانے پر ہو سکتی ہے،لیکن اللہ کی بادشاہت تو دنیا،اور اس جیسی لاتعداد دنیاؤں اور کائنات کے ہر ذرے ذرے میں ہے۔ہر گوشے گوشے میں ہے۔وہی آسمان اور زمین کا اکیلا مالک ہے۔پھر کیوں تم اللہ پر یقین نہیں رکھتے؟اے قوم مسلم! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کب تک خواب غفلت میں رہوگے؟یقین جانو اللہ ایک دن ہمارے کئے ہوئے اعمال کاحساب لینے والا ہے ،پھر اللہ کو کیا منھ دکھاؤ گے؟
اگر اِنسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر غور کرے تو وہ اُسے بے حیائی اور ہر بُرے کام سے روکے گی، اس لئے کہ اِنسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو اہمیت نہیں دیتا۔ پھر ہر رکعت میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اِس بات کا اقرار او رعہد کرتا ہے کہ یا اللہ! میں تیری ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور تجھ سے ہی مدد مانگتا ہوں۔ لہٰذا جب اِس کے بعد کسی گناہ کا خیال اُس کے دل میں آئے تو اگر اُس نے نماز دل لگا کر پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہئے، جو یقینا اسے گناہ سے روکے گا، نیز وہ رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت وسکون میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبانِ حال سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہئے تو یقینا نماز اسے برائیوں سے روکے گی۔ انسانوں کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بھی رکاوٹ لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر نماز ہی ہے۔آدمی ہر روز دن میں پانچ وقت اللہ کے سامنے حاضری کے لیے ب لایا جاتا ہے اور اس کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک اللہ کا بندہ ہے، اور تیرا مالک و حاکم وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے حتی کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔ ایک وقت ضرور ایسا آئے گا کہ تجھے اس کے سامنے پیش ہوکر اپنے کئے ہوئے اچھے اور برے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔
آدمی کو ہر نماز کے وقت اس بات کیpractice کرائی جاتی ہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔نماز کے لیے اٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور اللہ کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے اللہ کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے۔اگر آدمی کا وضو ٹوٹ چکاہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور اللہ کے سوا آخر کس کو معلوم ہوگا کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے نماز کی تسبیح و تکبیر پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ گانا گاتا رہے تو اس کے اور اللہ کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔
اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانون خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جاتی ہے۔
اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جاتا ہے،اسے فرض شناس انسان بنایا جارہا ہے،اور اس کو عملا اس بات کی practice کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے دل کے پاک اور خلوص جزبے سے چھپ کر اور سب کے سامنے ہر حال میں اس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے،اگرچہ تنہائی میں بھی اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو، دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو،اسے ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور نبی کریم ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔مومن شوق اور بے چینی سے نماز کے وقت کا منتظر رہتا ہے اور جب نماز کا وقت آجاتا ہے تو خوشی اور مستعدی سے نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے،سمجھتاہے کہ میں اس وقت مالک الملک کے دربار بے کس پناہ میں حاضری کے لئے آیا ہوں، پورے اطمینان و سکون، خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے، قیام و قعود اور رکوع و سجود میں اللہ کو یاد کرتا ہے، خشیت الٰہی سے کانپتا رہتا ہے،نماز کے مکمل ہو جانے کے بعد ہی اپنے دل کو شاد کرتا ہے۔
صبر اور نماز دو ایسی نایاب چیزیں ہیں، جو مومن میں مضبوط سیرت اور زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا رہتاہے بلکہ ان کا منہ پھیر دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے