تحریر: امتیاز احمد، پاکستان
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہا تعمیر کرد
علامہ اقبال بر صغیر کے وہ شاعر، مفکر اور مصلح ہیں جنہوں نے اپنے خیالات اور انقلابی افکار کے لیے بیک وقت اردو، فارسی اور انگریزی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کی شاعری اردو اور فارسی جبکہ خطبات وغیرہ انگریزی زبان میں موجود ہیں۔ ان کا فکر و فلسفہ محض شاعرانہ خیال یا فلسفیانہ تصور نہیں بلکہ سب کچھ منطق و دلائل کا طواف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اقبال مفکرِ اسلام، حکیم الامت، شاعرِ مشرق، دانائے راز، ترجمان خودی اور نجانے کتنے القابات و خطابات کے حق دار ہیں۔ اقبال نے پوری دنیا اور اس کے ادب کو متاثر کیا۔ اقبال ہمارے ماضی قریب کی عظیم شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ دنیائے علم و ادب، فلسفہ و سائنس اور تاریخ و سیاست میں اقبال ایک ایسی منفرد حیثیت رکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب ان کی عظمت اور اہمیت کے قائل ہیں۔ حضرت علامہ محمد اقبال کا کلام اور ان کی فکر محض براعظم کی وسیع و عریض حدود تک ہی محدود نہ رہی بلکہ وہ سیاسی، جغرافیائی اور نسلی حدود کو عبور کر کے ہر طرف پھیل گئی ۔جو لوگ اقبالیات اور اقبال شناسی جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ان کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان اصطلاحات کے اندر معمولی سا فرق موجود ہے۔
اقبالیات کو ایک شعبہ علم کہا جاسکتا ہے جس میں اقبال کی شعری و فکری تصانیف کے علاوہ مقالات اور مکاتیب وغیرہ شامل ہیں۔ اقبال شناسی علم کی ایک ایسی روایت ہے جس کی بنیاد حیات و افکار کی تفہیم کے سلسلہ میں کی جانے والی اب تک کی کاوشوں کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے راقم کو ڈاکٹر محمد نواز کنول کی طرف سے ایک دستخط شدہ کتاب بنام "رومی اور اقبال میں فکری روابط” موصول ہوئی۔ ڈاکٹر محمد نواز کنول شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اور آج کل گورنمنٹ اسلامیہ گریجوایٹ کالج سانگلہ ہل میں صدر شعبہ اردو ہیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ اردو کے علاوہ فارسی سے بھی بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے رومی اور اقبال میں فکری روابط اور ہم آہنگی کو فارسی اشعار کے برمحل استعمال کی مدد سے واضح کیا ہے۔ خالص ادبی زبان اور اصطلاحات نے ان کے اسلوب کو بالکل الگ پہچان دے رکھی ہے۔ قاری کی آسانی کے لیے انہوں نے کتاب کو تیرہ چھوٹے چھوٹے موضوعات میں تقسیم کیا ہے۔ بہرحال یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ اقبال اور رومی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اقبالیات و اقبال شناسی کی روایت سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ کتاب کا دیباچہ اس قدر روح افزاء ہے کہ پوری کتاب کا حاصل اور نچوڑ قاری کو تمام موضوعات کی طرف بڑھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ رومی اور اقبال کے حوالے سے جس موضوع کو انہوں نے مقدم رکھا وہ رومی اور اقبال کا عہد ہے۔ ڈاکٹر محمد نواز کنول لکھتے ہیں کہ رومی اور اقبال کا عہد پرآشوب تھا۔ دونوں کے عہد میں ملت اسلامیہ کے زوال کی جھلک موجود ہے۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ مرید ہندی (اقبال) پیر رومی سے اپنے عہد کا تقابلی جائزہ یوں پیش کرتے ہیں:
؎ چو رومی در حرم دادم اذاں من
از و آمو ختم اسرار جاں من
بدور فتنہ عصر کہن او
بدور فتنہ عصر رواں من
رومی اور اقبال دونوں کے عہد میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ عالم اسلام کی ان دونوں جلیل القدر شخصیات نے اپنے اپنے عہد کے لوگوں کو امید اور حوصلہ دیا۔ ایک اور پہلو جو کھل کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ رومی اور اقبال دونوں کے کلام میں آفاقی پیغام موجود ہے۔ یہ پیغام ملت اسلامیہ کے لیے اخوت، یگانگت اور اتحاد کا مژدہ جاں فزا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
؎ نغمہ کجا و من کی سازسخن بہانہ ایست
سوئی قطار میکشم ناقہ بی زمام را
اقبال کے دیار سخن وری میں موضوعاتی تنوع، سنائی و عطارو مولوی کا مطالعہ ہے۔ بالخصوص مولانا روم کے مطالعہ کی بدولت الفاظ کی گرہ کشائی اور گوہر معانی تک رسائی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ مرشد رومی نے راز معنی کھول کر اقبال کے مقدر میں شہرت دوام لکھ دی۔ اقبال اس کا اعتراف یوں کرتے ہیں۔
؎ نغمہ میباید جنون پروردہ ای
آتشی درخون دل حل کردہ ای
نغمہ گرمعنی ندارد مردہ ایست
سوز او از آتش افسردہ ایست
اقبال بہت بڑے مقلد رومی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ رومی اور شمس تبریز سے اپنا دلی تعلق استوار کیے رکھا۔ علامہ اقبال نے مثنوی نگاری کے حوالے سے "اسرار خودی” اور "رموز بے خودی” کے شاہ کار پیش کیے۔ ان مثنویوں کی تخلیق بھی مولانا روم کی مثنوی مولوی معنوی کو سامنے رکھ کر کی گئی تھی۔ اقبال اپنے روحانی پیشوا مولانا روم اور مرشد رومی شمس تبریز کے ساتھ اپنا دلی تعلق استوار رکھتے ہوئے جان و جسم میں سمو کر بے اختیار کہہ اٹھتے:
؎ مطرب غزلی بیتی از مرشد روم آور
تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزی
عشق ِ رسولؐ کے حوالے سے بھی رومی اور اقبال کے اندر مماثلت موجود ہے۔ دونوں نے رسول ؐ کے ساتھ عشق کیا اور اس کا پرچار بھی لازم سمجھا۔ مثنوی مولانا روم میں ذکر رسولؐ بہ کثرت موجود ہے۔ یہ ذکر رسول کریمؐ در حقیقت پرچارِ عشق رسول ؐاور حق و صداقت کی وہ تبلیغ ہے جو رومی کی شاعری کا مقصد و مدعا ہے۔ اس حوالے سے ان کا فارسی شعر ملاحظہ فرمائیں!
؎ عشق آں شعلہ است کہ چوں بر فروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
پیر رومی اور مرید ہندی کے ہاں عشق کے تصورات کے حوالے سے جو فکری روابط ملتے ہیں عالم اسلام ان پر نازاں ہے۔ اقبال کے ہاں بھی رومی کی طرح عشق ایک باکمال قوت ہے۔
؎ نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہ
رومی اور اقبال کے فکری روابط کی ایک اور اہم کڑی یہ ہے کہ دونوں نے حمد و نعت اور مناقب بھی لکھے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعریف و توصیف کے علاوہ صحابہ اور اولیاء اللہ سے بھی دونوں کو محبت رہی ہے۔ مولانا روم ایک صوفی باصفا، عارف کامل اور ظاہری و باطنی علوم سے مالامال تاریخ اسلام کی ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ علم تصوف ،اسرارورموز اور روحانیت کے حوالے سے راہروان حقیقت و معرفت کے باکمال میر کارواں تھے۔ اسی طرح اقبال بھی تصوف کے پیروکار تھے۔ اقبال نے عارفانہ ماحول میں آنکھ کھولی۔ ان کا گھرانہ تصوف کا دلدادہ اور علم و معرفت کا عاشق تھا۔
اقبال کو اولیاء اللہ سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کا کلام محبت اولیاء سے سرشار ہے۔ اقبال نے درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء پر دوران حاضری مزار مبارک کے سرہانے بیٹھ کر ایک نظم پڑھی!
؎ فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تیری فیض عام ہے تیرا
تیری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا
نہاں ہے تیری محبت میں رنگ محبوبی
بڑی ہے شان بڑا احترام ہے تیرا
پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز کنول نے رومی اور اقبال کو ہر ایک زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں، یعنی رومی اور اقبال عظمت انسانی کے قائل تھے۔ یہ خوبی بھی دونوں میں موجود تھی، دونوں چاہتے ہیں کہ انسان اپنی عظمت کو پہچانے۔ مولانا روم کے ہاں نظریہ وحدت الوجود پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ جبکہ اقبال قیام یورپ کے دوران نظریہ وحدت الشہود کی طرف راغب ہو گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال بعد میں دوبارہ وحدت الوجود کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ یہاں پر کسی سے اختلاف کرنا مقصود نہیں ہے۔ بہرحال ایک بڑا مصنف وہ ہوتا ہے جو حقائق کی جستجو میں رہ کر انہیں دریافت کرتا ہےاور کاغذ پر اتار دیتا ہے۔ اس معاملے میں ڈاکٹر محمد نواز کنول نے حقائق کی پردہ پوشی نہیں کی۔ وہ جہاں رومی اور اقبال کے فکری روابط پر بات کرتے ہیں وہیں پر نظریہ وحدت الوجود پر اختلاف کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مدلل گفتگو، تحقیقی جستجو، برمحل فارسی اور اردو اشعار کا استعمال ڈاکٹر محمد نواز کنول کے اسلوب کو جاندار بناتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ فن پارہ محض ادب کے قاری کے لیے ہی نہیں بلکہ اسے ایک عام قاری بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ انہوں نے جس خوبصورتی سے رومی اور اقبال کے فکری روابط پر بات کی ہے اس سے راقم ایک رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے ، وہ رائے یہ ہے کہ اگر آپ اقبال کو بند آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو آپ کو رومی نظر آئیں گے، جب کہ آنکھیں کھولنے پر آپ اقبال کو دیکھیں گے۔ الفاظ کا چناؤ بہت عمدہ ہے۔ دوران تحریر انہوں نے جزئیات نگاری سے کام لیا ہے اور اقبال شناسی کے حوالے سے لکھنے والے بے شمار بڑے لکھاریوں کی موجودگی میں ڈاکٹر محمد نواز کنول اپنا چراغ جلا نے اور اس کی لو کو بلند رکھنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ سے محبت ان کے سینے کو منور کیے ہوئے ہے۔ بلاشبہ یہ ایک پیچیدہ موضوع تھا جس کو ڈاکٹر محمد نواز کنول نے انتہائی سادگی سے قاری کے سامنے رکھا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ ان کے وسیع مطالعہ کا ثبوت ہے۔