علما و مشائخ

محدث گھوسوی علامہ غلام یزدانی علیہ الرحمہ

محدث گھوسوی ، رئيس الاذکیاء علامہ غلام یزدانی علیہ الرحمۃ والرضوان کی دینی خدمات کا مختصر تعارف اور آپ کی قبر انور پر فقیر کی حاضری کے وقت رونما ہونے والے ایک حیرت انگیز واقعے کی تفصیل

وصال: ٤ ذی الحجہ ١٣٧٤ھ مطابق ٤ اگست ١٩٥٤ء

ازقلم: شمیم رضا اویسی امجدی
خادم التدريس: طیبۃ العلماء جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی

مدینۃ العلماء گھوسی ضلع مئو کی سرزمین قدیم زمانے سے بڑی زرخیز اور مردم خیز رہی ہے …… اس سرزمین سے علم و ادب، تاریخ و تمدن اور رشد و ہدایت کے ایسے ایسے گل و لالہ، نرگس ِشہلا، سوسن و یاسمن اور سنبل و نشترن کھلتے رہے جنکی خوشبوؤں نے نہ صرف بر صغیر بلکہ پورے عالم اسلام کو مشکبار کیا …… اس سر زمین پر جتنی بھی قابل ذکر اور تاریخ ساز ہستیاں ظہور پذیر ہوئیں انمیں رئیس الاذکیاء، محدث گھوسوی حضرت علامہ مولانا مفتی غلام یزدانی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات گرامی کافی نمایاں اور اہم ہے …… آپ ایک طرف دریائے علم و ہنر کے شناور تھے تو دوسری طرف میدان طہارت و تقویٰ میں شان یکتائی کے حامل ……. ایک طرف اتباع سنت، اخلاق نبوت، سیرتِ صحابہ اور اسوہِ مشائخ کا سر چشمہ تھے تو دوسری جانب ترقیِ ملت، ہمدردیِ خلقِ خدا، غمخواریِ نوعِ انسانیت اور ایثار و قربانی جیسے عمدہ شمائل و خصائل سے سرشار تھے ،

آپ رحمۃاللہ علیہ ایک نہایت ہی فعال، متحرک اور بافیض عالم دین تھے …… تعمیر ملت، فکرِ فردا، اور قوم کے اندر علمی روح پھونکنے کا جذبہء صادق آپکو اپنے والد بزرگوار حضرت مولانا صدیق علیہ الرحمۃ سے گویا وراثت میں ملا تھا …… جسطرح مولانا صدیق علیہ الرحمۃ نے جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم کی تعمیر و ترقی میں ناقابل فراموش اور عہد ساز کارنامہ انجام دیا …… ٹھیک اسی طرح رئیس الاذکیاء علامہ غلام یزدانی علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی نسل نو کے مستقبل کو روشن و تابناک بنانے اور انہیں دینی تعلیم سے روشناس کرانے کی غرض سے سر زمین مدینۃ العلماء گھوسی پر اپنی جہد مسلسل، عمل پیہم اور حسنِ کارکردگی سے اہلسنّت کے ایک عظیم ادارے جامعہ شمس العلوم کی بنیاد رکھی ….. جہاں سے گھوسی ، اطراف و نواح اور دور دراز کے علاقوں سے بے شمار طالبان علوم نبویہ اپنی عملی پیاس بجھاتے رہے اور آج تک یہ سلسلہ اپنی پرانی روش پر یونہی قائم و دائم ہے …… اس مدرسے کی برکت سے شہر گھوسی کو مدینۃ العلماء ہونے کا شرف حاصل ہوا …… اور آج یہاں کے ہر گھر میں ایک سے دو عالم یا عالمہ ضرور پائے جاتے ہیں ……. اور ان سب کے پیچھے حضور رئیس الاذکیاء کا بہت ہی اہم اور نمایاں رول ہے ،

سیرتِ صدر الشریعہ ص: ٢٣٠ پر مفتی محمود اختر القادری لکھتے ہیں "

” تقسیمِ ہند سے کچھ پہلے بھرت پور کے فرقہ پرستوں نے مسلمانوں سے شہر خالی کرایا تو ١٩٤٢ء میں وطن آ کر (خیر الاذکیاء) نے دوبارہ مطب شروع کیا اور یہ سلسلہ ١٩٥٠ء تک جاری رہا، اسی دوران آپ نے محسوس کیا کہ گھوسی میں اہلسنّت کا ایک بھی مکتب نہیں جہاں نونہالان قوم دینی تعلیم سے روشناس ہو سکیں، آپ نے اس جانب توجہ فرمائی، اور محلے کے سربرآوردہ کو ابھارا، عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جلسہ و جلوس کے لیئے لوگوں کو آمادہ کیا، رافضیوں اور غیر مسلموں کی انتہائی مخالفت کے باوجود جلسہ و جلوس بہت ہی شان و شوکت سے ہوتے رہے، جس سے سنی مسلمانوں میں غیر معمولی جوش پیدا ہوا "

آپکے برادر اکبر شیخ العلماء علامہ غلام جیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں”

"دار العلوم شمس العلوم قصبہ گھوسی ضلع اعظم گڑھ (حالیہ مئو) کی تعمیر و ترقی میں انہوں نے (خیر الاذکیاء) نے پر زور سعی کی، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اس دار العلوم کے بانی ہیں، انکی یہ خدمت نفسانی امراض سے پاک و صاف تھی، انہوں نے یہ ادارہ قائم کر کے قوم کے ہاتھ میں دے دیا، اس پر اپنا تسلط باقی نہیں رکھا” (انٹرویو، نگارشات ص: ٢٣٣)

آپ رحمۃاللہ علیہ کی پوری زندگی ماکان اللہ و کان اللہ لہ کی عملی تفسیر تھی ……زندگی کی آخری سانس تک پورے اخلاص کے ساتھ خدمتِ دین متین میں ہمہ تن گوش رہے …… آپکو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جملہ علوم و فنون پر کامل دسترس عطا فرمائی تھی …… آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو درس و تدریس سے وابستہ رکھا ، آپکی تدریسانہ صلاحیت اور علمی لیاقت کا ہر کوئی قائل تھا ، شیخ العلماء فرماتے ہیں "

” آپ ایک معیاری عالم، اور قابل مدرس تھے ، حضرت مفتیِ اعظم ہند صاحب قبلہ نے انکے انتقال کے وقت فرمایا ، "مولوی غلام یزدانی علیہ الرحمۃ انتقال کر گئے اب ہم کو ایسا قابل مدرس ملنا مشکل ہے میں نے انکے لکھے ہوئے فتوے دیکھے تو معلوم ہوا کہ انہیں فتویٰ نویسی میں کمال حاصل تھا سبحان اللہ کیا شانِ افتا تھی”
"ہندوستان پاکستان کا جب بٹوارہ ہوا اور مولوی سردار احمد صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ پاکستان میں رہنے پر مجبور ہو گئے تو مفتیِ اعظم صاحب قبلہ نے فرمایا کہ اپنی جگہ کسی کو منتخب کر کے جائیے ، اس پر مولوی سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا ، مولوی غلام یزدانی میری جگہ کامیابی کے ساتھ تحریری خدمات انجام دے سکتے ہیں بلا تأمل انکو بلا لیجیئے ،چنانچہ برادر عزیز مولوی غلام یزدانی علیہ الرحمۃ دار العلوم مظہر اسلام پہونچے اور طلبہ نے انکو سراہنا شروع کیا تو مفتیِ اعظم صاحب قبلہ نے مولوی سردار احمد صاحب کو بذریعہ خط اطلاع بھیجی کہ مولوی غلام یزدانی صاحب نے دارالعلوم مظہرِ اسلام میں کام شروع کر دیا ہے آپ کا انتخاب درست ثابت ہوا طلبہ انکے حسن تدریس سے مطمئن ہیں ، اس دار العلوم کو نعم البدل مل گیا ” (انٹرویو، نگارشات ص: ٢٣٣)

آپ رحمۃاللہ علیہ بڑے ہی با رعب عالم دین تھے ، جرأت ایمانی ، حق گوئی اور شریعت کی پاسداری میں انفرادی حیثیت رکھتے تھے …… مسائل شرع بڑی جرأت مندی اور بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ….. والد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور رئيس الاذکیاء کے خاندان میں کسی عورت کے طلاق کا معاملہ پیش آیا …… اور آپکو معاملے کی وضاحت اور شرعی مسئلہ بیان کرنے کی غرض سے مدعو کیا گیا ……. آپ جب پہونچے تو ایک صاحب کہنے لگے حضرت ! خاندان کا مسئلہ ہے دھیان فرمائیے گا !!! اتنا سننا تھا کہ حضرت سخت برہم ہو گئے …… اور ان صاحب کو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : افسوس ہے تم پر ! کیا میں شرعی مسئلہ بیان کرنے میں خاندان کی رعایت کروں ؟؟

حیات مؤرخ اسلام کے مقدمہ ص:٧٧ پر علامہ فروغ احمد اعظمی دام ظلہ لکھتے ہیں "

” آزادی کے بعد گھوسی میں اعظم گڑھ سے کچھ مسلم لیگی آئے ، انہوں نے شرعی مسئلہ پوچھنے کے لیے حضرت کو بلایا ، حضرت نے فرمایا شرعی مسئلہ پوچھنا ہو تو میرے پاس آؤ ! ویسے مریض کو دیکھنے مسلم اور غیر مسلم سب کے وہاں جاتا ہوں ، پھر وہ مسلم لیگی حضرت کے پاس آئے اور گائے کے ذبیحہ کے متعلق مسئلہ پوچھا کہ اب حکومت بدل گئی ہے ، لہٰذا مسلمانوں کے لیئے گائے کا ذبیحہ بند ہونا چاہیے حضرت رئیس الاذکیاء نے فرمایا کہ جب تک بندش کے لیئے حکومت کا قانون جاری نہیں ہوتا اس وقت تک بند کرنا ناجائز ہے ، یہ سننا تھا کہ مسلم لیگی اٹھ کر چلے گئے "

آپ رحمۃاللہ علیہ نے ٤ ذی الحجہ ١٣٧٤ھ مطابق ٤ اگست ١٩٥٤ء کو مظہرِ اسلام کی ملازمت کے دوران داعی اجل کو لبیک کہا …… آپ کے وصال کے وقت حضور مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کی اضطرابی کیفیت کا کیا عالم تھا ؟ شاگرد رئیس الاذکیاء مفتی مجیب الاسلام علیہ الرحمۃ اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں "

” بریلی شریف میں جب آپکا وصال ہوا ، حضرت مفتیِ اعظم ہند کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، اور اس وقت جو بھی کلمات آپ نے ارشاد فرمائے ، گلوگیر انداز میں ارشاد فرمائے ، تدفین کے بعد کافی دیر تک حضرت رئیس الاذکیاء کے علم و فضل ، تقویٰ و طہارت ،ذہانت و فطانت کا ذکر کرتے رہے "
” بریلی شریف کے ایک معمر عالم دین کے بقول جب رئیس الاذکیاء کا وصال ہوا مفتیِ اعظم ہند نے فرمایا ” آج میرا داہنا ہاتھ ٹوٹ گیا” ( کتاب مفتی مجیب الاسلام بحوالہ مقدمہ حیات مؤرخ اسلام ، از مولانا فروغ احمد اعظمی ، ص:٧٦)

آستانہ اعلحضرت کی طرف جانے والے راستے بہاری پور ، راجو کا تکیہ قبرستان کے قریب مسجد نلوں والی کے بغل میں سر زمین گھوسی کے اس عظیم سپوت کی دائمی آرام گاہ ہے ، جسکی عظمتوں کے نقوش پوری علمی کائنات میں مرتسم ہیں ،

(حضور رئيس الاذکیاء کی قبر پر فقیر کی حاضری اور حیرت انگیز واقعے کا ظہور)

پچھلے سال مجھے میرے دو ہر دل عزیز دوست …… مولانا تابش رضا جیلانی اور علی اکبر اویسی صاحبان کے ساتھ مرشد کی نگری ….. بلگرام شریف اور وہاں سے …… شہر عاشقاں بریلی شریف بارگاہِ اعلحضرت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا …… جس وقت ہم لوگ بریلی شریف پہونچے اسی وقت یہ ارادہ بن گیا کہ واپسی میں حضور رئيس الاذکیاء علامہ غلام یزدانی علیہ الرحمۃ والرضوان کی مرقد انور پر بھی حاضری پیش کی جائے گی …… لیکن وقت کی تنگی دامن گیر تھی اور ہمیں اسی روز شام میں واپسی کی ٹرین بھی پکڑنی تھی …. اور سب سے بڑا مسئلہ ہمارے سامنے یہ تھا کہ حضرت کا مزار کس جگہ واقع ہے؟ یہ کیسے معلوم ہو ! چونکہ عموماً اہلِ گھوسی …… حضرت کی شخصیت سے تو واقف ہیں لیکن اس چیز سے بالکل ناواقف ہیں کہ آپکا مزار کہاں اور کس جگہ پر واقع ہے؟ کافی دیر غور و فکر کرنے اور کچھ لوگوں سے دریافت کرنے کے بعد جب نتیجہ سامنے نہ آیا تو ……. ہم لوگوں نے استاذ مکرم مولانا افتخار ندیم صاحب قبلہ کو فون لگایا اور مزار شریف کا پتہ پوچھا ! حضرت نے بڑے ہی سہل انداز میں ہمیں مزار شریف تک پہونچنے کا راستہ سمجھا دیا …… چنانچہ چند لمحوں کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم لوگ نلوں والی مسجد کے پاس پہونچ گئے ……. یہ وہی مسجد تھی جسمیں حضور رئیس الاذکیاء بریلی شریف کے قیام کے دوران نماز پنجگانہ اور جمعہ کے امام تھے اور اسی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھاتے وقت سلام پھیرنے کے فوراً بعد آپ پر فالج کا حملہ ہوا اور اسی مرض میں ١٥ روز کے بعد اسپتال میں آپکا وصالِ پرملال ہو گیا …….. مسجد میں داخل ہونے کے بعد مشرقی دیوار کی طرف ایک دروازہ ہے جو مزار کے اندر جانے کا واحد راستہ ہے، اسی دروازے سے مزار کے اندر ہم لوگ داخل ہوئے …… قبر کافی بوسیدہ حالت میں تھی …… پائنتانے کے کچھ حصے ٹوٹے ہوئے تھے …… مزار کے اوپر چڑھی ہوئی چادر اور ارد گرد کے حصوں پر مٹی کے ذرات بکھرے ہوئے تھے …… دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لیئے اوپر کی جانب ایک چھاجن تھا جسمیں اکثر جگہوں پر سوراخ نظر آ رہے تھے ……. میں نے اپنے رفیق محترم علی اکبر اویسی سے کہا ، یار ! کیوں نا مزار شریف کی اچھی طرح صفائی کر دی جائے !! اس نے حامی بھری اور وضو خانے کے پاس رکھا ہوا جھاڑو لینے چلا گیا …… میں نے اپنے رومال سے چادر کی اوپری سطح اور بغل میں رکھے ہوئے ایک طاق پر نعلین پاک کا نقشہ ……. جو کہ مٹی سے پوری طرح گرد آلود تھا …… خوب اچھی طرح صاف کیا اور رومال دھل کر دیوار کی ایک سمت ٹانگ دیا ….. اب باری تھی مزار شرف کے ارد گرد بکھرے ہوئے مٹی کے ذرات کو جھاڑنے کی ، جسکے لیئے ہم نے جھاڑو کا سہارا لیا ….. سرہانے سے جھاڑو لگاتے ہوئے جب پائنتانے پہونچے اور چادر کو جیسے ہی تھوڑا سا اٹھایا …….. اچانک ایک بارعب آواز سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ……. ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی ……. غور کیا تو سرہانے کی طرف سے کسی بزرگ کے تسبیح پڑھنے کی آواز سنائی دی …… جو حق لا الہ کی صدائے دلنواز بلند کر رہے تھے ……. آواز کافی ہلکی تھی جسے قریب سے سن پانا ہی ممکن تھا …….. میں نے جیسے ہی یہ آواز سنی تھوڑا سا سہم گیا اور اپنے بغل میں کھڑے دوست جو کہ صفائی میں مصروف تھا …….. آواز کی طرف متوجہ کرانے کی کوشش کی …….. تقریباً چار مرتبہ تسبیح کی آواز بلند ہوئی …… شروع کی دو تسبیح میں نے واضح طور پر سنی …… تیسری دوست کو توجہ دلانے میں صاف سنائی نہ پڑی ……. لیکن چوتھی تسبیح ہم دونوں نے بالکل واضح اور صاف طور پر سنی …… آواز سننے کے بعد کچھ دیر تک اپنی کیا کیفیت تھی …… لفظوں میں بیان کرنا میرے لیئے ممکن نہیں ……. ہاں … اتنا ضرور کہوں گا کہ ویسی میٹھی اور بارعب آواز میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں سنی ….. اور آج تک اسکی حلاوت محسوس کر رہا ہوں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے