مذہبی مضامین

اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں

ازقلم: سعدیہ بتول اشرفی (سبا)
بنت عبد الحمید اشرفی

ایمان کسے کہتے ہیں؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کے سامنےتشریف فرما تھے اتنے میں ایک آدمی نے حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ایمان کیا چیز ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس سے ملنے کا، اس کے پیغمبروں کا اور حشر کا یقین رکھو
(صحیح مسلم)

ایمان :- یعنی بندہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں

مثلاً__ قیامت کے قائم ہونے ، حساب و کتاب، جنت و دوزخ، تاجدار ختم نبوت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی ماننا’
نماز کی فرضیت وغیرہ پر یقین رکھے اگر کوئ کسی ایک ضرورتِ دینی کا انکار کرے وہ کافر ہے

ایمان کو جان لینے کے بعد اب آئیے اس کی اہمیت کو جانتے ہیں بندہ وہی عقل مند ہے جو اپنے رب کو پہچانے ، اللہ پاک پر ایمان رکھے اس کے علاوہ سب بیوقوف ہیں خالق کائنات قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫
بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے

اللہ پاک کے نزدیک مقبول و پسندیدہ دین صرف اور صرف اسلام ہے جو حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ لے کر کے تشریف لائے اس کے علاوہ کوئ دین اللہ پاک کے نزدیک پسندیدہ نہیں

ائے اسلام کی مقدس شہزادیو ! یہ اللہ پاک کا کروڑوں احسان ہے کہ اس نے اپنا پسندیدہ دین ہمیں عطا فرمایا کہ جس کی راہ ہی راہِ نجات ہے

تعجب کی بات ہے کہ کچھ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام اختیار کرکے ایمان لاکر کے
معاذ اللہ _ اسلام و پیغمبر اسلام پر احسان کیا ہے!!!
وہ خدا کا یہ فرمان سن لیں

یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْاؕ-قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْۚ-بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۷)
اے محبوب! وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ تم فرماؤ: اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت دی اگر تم سچے ہو۔

فرمایا: ائے محبوبﷺ یہ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے آپ ان کی غلط فہمی دور کردیں اور انہیں بتادیں کہ تم نے اسلام لا کر مجھ پر احسان نہیں کیابلکہ اللہ پاک نے تم پر احسان کیا کہ تم کو ایمان کی دولت دے دی ورنہ کافر مرتے تو جہنم میں جاتے اور جہنم میں ہمیشہ رہتے

پتہ چلا کہ کسی مخلوق کا حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ پر کوئ احسان نہیں بلکہ سب پر حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ کا احسان ہے کہ ہمیں جو کچھ نعمتیں ملیں وہ حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ ہی کے طفیل ملیں اگر سارا جہاں کافر ہوجائے تو حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ کا کچھ نہیں بگڑتا اور اگر سارا جہاں متقی و پرہیزگار ہوجائے تو حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ پر کوئ احسان نہیں
توجہ !! سورج سےنور لیں تو سورج پر ہمارا احسان نہیں بلکہ ہم پر اس کا احسان ہے

تو ائے اسلام کی شہزادیو!!! اپنے ایمان کی فکر کریں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں یہ وہ نور ہے یہ وہ روشنی ہے جو اللہ پاک اپنے پسندیدہ بندوں کے سینے میں ڈالتا ہے اسی سے سب کچھ ہے یہ نہ ہو تو کچھ ، اس کے بغیر کوئ بھی نیک عمل کام نہیں آسکتا اسی سے اگلے جہاں میں راحت ملے گی
ورنہ آگ ہمیشہ ہمیشہ کا ٹھکانہ ہوگا
لہذا !! اس کے مقابلے میں کتنی ہی قیمتی چیز کیوں نہ آکر کھڑی ہوجائے اس چیز کو چھوڑ دیں اور ایمان کو بچالیں اس کی حفاظت کریں اس پر ثابت قدم رہیں

اللہ پاک پارہ 24 سورۂ حٰمٓ السَجْدَہ کی آیت نمبر 30میں ارشادفرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۳ ۰)(پ۲۴، حم السجدہ:۳۰)

تَرْجَمَۂ کنز ُالعِرفان:بیشک جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے اُن پر فرشتے اُترتے ہیں(اور کہتے ہیں)کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت پر خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔

*سبحان اللہ العظیم : ان مؤمنین سے فرمایا جارہا ہے جو اپنے ایمان پر قائم رہے کہ غم نہ کرو اس کا جو پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے ہو مال و اہل و عیال وغیرہ بلکہ اس جنت پر خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ آقاﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا
پھر آپ نے فرمایا: لوگوں نے یہ کہا یعنی ہمارا رب اللہ ہے پھر ان میں سے اکثر کافر ہوگئے توجو شخص اسی قول(ہمارا رب اللہ ہے) پر ڈٹا رہا حتی کہ وہ مر گیا وہ ان لوگوں میں سے ھے جو اس قول پر ثابت قدم رہے

حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے اسلام کے بارے میں کوئ ایسی بات بتائیے کہ میں آپ کے بعد کسی اور سے سوال نہ کروں
ارشاد فرمایا: تم کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس (اقرار) پر ثابت قدم رہو

اللہ اللہ

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا
استقامت کیا ھے؟ فرمایا: استقامت یہ ہے کہ بندہ اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے

اللہ اکبر
خود رب کائنات ارشاد فرماتا ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲) (پ۴، اٰل عمران :۱۰۲)

تَرْجَمَۂ کنز العرفان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔

یعنی اپنی زندگی میں ہر لمحہ اسلام ہی پر عمل کریں۔ کہ جب تمہیں موت آئے تو اسلام ہی پر آئے _

حضرت امام حسن بصری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ سے پوچھا گیا: آپ کا کیا حال ہے؟ فرمایا :جس شخص کی کشتی (Boat)دریا کے درمیان جا کر ٹوٹ جائے ،اس کے تختے بکھر جائیں اور ہر شخص ہچکولے کھاتے تختوں پر نظر آئے تو اس کاکیا حال ہو گا؟ عرض کی گئی: بے حد پریشان کُن۔ فرمایا :میرا بھی یہی حال ہے۔

ایک بار آپ ایسے اُداس ہوئے کہ کئی سال تک ہنسی نہ آئی۔ لوگ آپ کو ایسے دیکھتے جیسے کوئی قید ِتنہائی میں ہے اور اسے سزائے موت سنائی جانے والی ہے۔ آپ سے اس بے چینی و پریشانی کاسبب دریافت کیاگیا کہ آپ اتنی ریاضت اور مجاہدات کے باوجود فکرمند کیوں رہتے ہیں ؟ فرمایا :مجھے ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جائے جس کی وجہ سے اللہ پاک ناراض ہو جائے اور وہ فرما دے کہ تم جو چاہے کرو مگر میری رحمت تمہارے شاملِ حال نہ ہو گی۔ بس اسی وجہ سے میں اپنی جان پگھلا رہا ہوں۔

اللہ اکبر ہمارے اسلاف کس قدر ایمان کی فکر کرتے حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ سے منقول ایک بُزُرگرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے ارشاد کا خُلاصہ ہے:اگر ایمان پر موت میرے اپنے کمرۂ خاص کے دروازے پر مل رہی ہو اور شہادت عمارت کے صدر دروازہ پر منتظر ہو تو شہادت اگر چِہ اعلیٰ دَرَجہ کی سَعادت ہے مگر میں کمرہ کے دروازے پر ملنے والی ایمان پر موت کو فوراً قبول کر لوں گا
کہ کیا معلوم عمارت کے صدر دروازے تک پہنچتے پہنچتے میرا دل بدل جائے اور میں ایمان پر ملنے والی موت کے شَرَف سے ہی محروم ہو جاؤں!
اللہ اکبر

مریضِ مَحَبَّت کا دم ہے لبوں پر سِرہانے اب آجاؤ شاہِ مدینہ

معزز قارئین! آخری ٹھکانہ ہر بندے کا جنت یا دوزخ ہے اوغ جنت میں صرف وہی جائے گا جو ایمان والا ہوگا لہذا خدارا اپنے ایمان کی حفاظت کریں
کسی کے قول و فعل میں آکر ، مغربی تہذیب کو اپنا کر
غیروں کے پیچھے چل کر ، غیر کی محبت میں پڑ کر ، اسلامی تعلیمات سے دور ہوکر, دنیا کی محبت میں اپنے ایمان کو خراب نہ کریں اور کسی غیر سے محبت کرنی ہی کیوں ہے ؟
محبت اس لئے کی جاتی ہے نا کہ وہ اچھے اخلاق والا ہے
یا مال و دولت والا ہے
یا یہ کہ آج میں اس سے محبت کروں گا تو کل وہ میرے کام آئے گا
یا وہ بھی مجھ سے محبت کرے گا
اور سب سے بڑی وجہ محبت کی کہ وہ بڑا خوبصورت ہے
یہی وجوہات ہوتی ہیں نا محبت کی ؟
محبت اگر اس لئے کی جائے کہ اخلاق بہت اچھے ہیں تو پھر سن لو کہ حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ سے بڑھ کر کسی کے اخلاق نہیں فرمایا اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ قرآن ہی ضرور کے اخلاق ہیں سبحان اللہ !!! تو پھر حضور ﷺ سے کیوں نہ محبت کی جائے؟

اور اگر محبت اس لئے کی جاتی ھے کہ بڑے مال والا ہے تو پھر حضورﷺ سے بڑھ کر کوئ صاحب مال نہیں جن کے ہاتھوں دونوں عالم کے خزانوں کی کنجیاں اللہ پاک نے عطا فرمائے ہیں کہ حضورﷺ قاسم نعمت ہیں تقسیم فرمانے ہیں دونوں جہاں حضورﷺ کی ملک ہیں
رب ہے معطی یہ ہیں قاسم
رزق اس کا ہے کھلاتے یہ ہیں

اور اگر محبت اس لئے کی جائے کہ بڑا طاقتور ہے تو سن لو کہ حضورﷺ سے بڑھ کر کوئ طاقتور نہیں ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حطورﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر نہیں دیکھا

اگر محبت اس لئے کی جاتی ہے کہ میں محبت کروں گا تو بدلے میں وہ بھی مجھ سے محبت کرے گا بتاؤ حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ سے بڑھ کر تم سب محبت کون کرتا ہے جو دنیا میں تشریف لائے ہیں تو لبوں پر امتی کی صدا ہے قرب خاص میں امت کو نہ بھولے امت کے لئے بخشش کی دعائیں کیں جب دنیا سے تشریف لے جارہے ہیں اس وقت بھی لب مبارک پر امتی کی صدا ہے اور آج بھی قبر انور شریف میں اپنی امت کو یاد فرماتے ہیں امت کے لئے بارگاہ خدا میں دعا فرماتے ہیں کوئ کسی سے اتنی محبت نہیں کرسکتا جتنی محبت حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ اپنی امت سے کرتے ہیں پھر کیا امت کا یہ حق نہیں کہ وہ اپنے محسن اتنے آقاحضور تاجدار ختم نبوتﷺ سے محبت کرے؟

اگر محبت اس لئے کی جاتی ہے کہ میں آج محبت کروں گا تو کل وہ میرے کام آئیے گا
بتاؤ کل پل صراط پر سے گزارنے والے کون ہیں؟
وہ کون ہیں جو نیکیوں کا پلڑا بھاری فرمائیں گے
کوثر کس کی ملک ہے؟
کون ہیں جو تمہاری سفارش رب کی بارگاہ میں کریں گے
تمہاری شفاعت فرمائیں گے
کس کے دامن میں چھپنے کی آرزو رکھتے ہو
حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ ہی ہیں جو کل قیامت میں تمہارے کام آنے والے ہیں
پھر محبت کیوں نہ کی جائے؟

اور سب سے بڑھ کہ محبت خوبصورتی کی بنا پر کی جاتی ہے پھر سن لو کہ حضورِ اقدس ﷺ سے بڑھ کر کوئ حسین نہیں کوئ جمیل نہیں ایسے حسین ہیں آپ کہ محبوب خدا ٹہرے
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئ تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا
ترے خالق حسن و ادا کی قسم

تو کسی اور سے محبت کیوں کرنی؟ غیروں کے پیچھے ایمان برباد کیوں کرنا !!!!!!

پیاری بیٹیوں !! یوں تو سب کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے لیکن اہل ایمان کو اپنی جان سے بڑھ کر ایمان پیارا ہوتا ہے
غوثِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اولیا کے سردار ہیں، مگر آپ نے عید کے دن اشعار کہے جن کا ترجمہ یہ ہے: لوگ کہہ رہے ہیں کہ کل عید ہے!کل عید ہے! اور سب خوش ہیں۔ لیکن میں تو جس دن ا س دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے کر گیا ،میرے لئے تو وہی دن عید ہو گا۔(صراط الجنان، ۱/۲۶۳)

اللہ اکبر !!!!!
ہمارے اسلاف کس قدر ایمان کی فکر کرتے ہمیں کب ہوش آئے گا خدارا ہوش کے ناخن لیں اپنے ایمان کی فکر کریں اپنے ایمان کی حفاظت کریں ،
غیروں کے لئے اسلام چھوڑا جارہا ہے اللہ اکبر !!!
وہ اسلام جو سب سے بڑھ کر قیمتی سرمایہ ہے دنیا کی حقیر سی دولت و غیروں کی محبت میں ایسی عظیم دولت و تاجدار ختم نبوت ﷺ جو سب سے بڑھ کر ہم سے محبت فرمانے والے ہیں ان کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ دینا !!
وہ دین جو اللہ کے نزدیک ہمارے خالق کے نزدیک پسندیدہ ہے اسے دنیا کے لئے بلکہ کسی بھی قیمت پر چھوڑ دینا عقلمندی نہیں بلکہ سب سے بڑی بیوقوفی و انتہائ نقصان دہ سودا ہے !!!!!!!!

اللہ اللہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ کیسی ایمان والی تھیں
وہ نیک خاتون اپنی حیثیت کے مطابق دن رات فرعون کی بیٹی کی خدمت کرتی رہتی،ایک دن وہ نیک عورت فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی(Comb)کر رہی تھی کہ اس دوران اس خاتون کے ہاتھ سے کنگھی گِر گئی،اس نیک سیرت عورت کی زبان سے بے اختیار”سُبْحٰنَ اللہ“کی آواز بلند ہوئی،فرعون کی غیر مسلم بیٹی نے جب یہ آوازسُنی تو کہا:کیا تُونے میرے باپ فرعون کی تعریف کی ہے؟اس مؤمنہ نے جواباً کہا:نہیں! بلکہ میں نے تو اساللہ پاک کی پاکی بیان کی ہے جو میرا،تیرے باپ فرعون کا اور تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے،عبادت کے لائق صرف وہی”وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک“ذات ہے۔اس مؤمنہ کی ایمان بھری گفتگو سُن کر فرعون کی بیٹی نے کہا:میں تمہارے بارے میں اپنے والد کو بتاؤں گی کہ تم اسے خدا نہیں مانتی۔عورت نے کہا:بے شک بتادو۔
چنانچہ اس نے اپنے باپ فرعون کو اس عورت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا،یہ سُن کر اس نے نیک سیرت مؤمنہ کو اپنے پاس بُلایا اور کہا:ہم نے سُنا ہے کہ تُو ہمارے علاوہ کسی اور کو خدامانتی ہے، تیری سلامتی اسی میں ہے کہ تُو اس نئے مذہب کو چھوڑ کر میری عبادت کر اور مجھے ہی خدا مان ورنہ تجھے درد ناک سزا دی جائے گی۔عورت نے کہا:تجھےجوکرنا ہے کرلے،میں کبھی بھی کفر کی طرف نہیں آؤںگی۔فرعون نے جب اس نیک سیرت عورت کی ایمان افروز گفتگو سُنی تو بہت غضب ناک ہواا ور تانبے کی دیگ میں تیل گرم کرنے کا حکم دیا۔جب تیل خوب کھولنے لگا تو اس کے بچے کو اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا ، کچھ ہی دیر میں بچے کی ہڈیاں تیل پر تیر نے لگیں۔ظالم فرعون نے عور ت سے کہا:کیا تُو مجھے خدا مانتی ہے؟اس نے کہا:ہرگز نہیں،میرا خدا وہی ہے جو تمام جہانوں کامالک ہے۔فرعون نے ایک ایک کر کے اس کے تمام بچو ں کو اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا،لیکن اس ہمت،صبراور شکر کرنےوالی عورت نے اپنا ایمان نہ چھوڑا ۔

فرعون نے جب دیکھا کہ وہ عورت کفر کی طرف آنے کو تیار نہیں ہے تو اس ظالم نے اپنے سپاہیوں (Guards) کو حکم دیا:اسے بھی اس کے بچوں کی طرح تیل میں ڈال دو!سپاہی جب اسے لے جانے لگے تو فرعون نے کہا:اگر تمہاری کوئی آرزو ہو تو بتاؤ۔کہا:ہاں!میری ایک خواہش ہے،اگر ہو سکے تو یہ کرنا کہ جب مجھے تیل کی اُبلتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا جائے اور میرا سارا گو شت جل جائے تو اس دیگ کو شہر کے دروازے پر بھجوادینا وہاں میری ایک جھونپڑی ہے،دیگ اس میں رکھوا کر جھونپڑی گِرا دینا تاکہ ہمارا گھر ہی ہمارے لئے قبرستان بن جائے۔فرعون نے کہا:ٹھیک ہے،تمہاری اس خواہش کو پورا کرنا ہمارے ذِمّے ہے۔پھر اس جرأ ت والی، مؤمنہ کو اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا گیا کچھ ہی دیر بعد اس کی ہڈیاں بھی تیل کی سطح پر تیرنے لگیں۔ (فیضان حضرت آسیہ،ص۷)

رسولِ اَکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:شب ِ معراج،میں نے ایک بہترین خُوشبو سُونگھی تو پوچھا:اے جبریل(عَلَیْہِ السَّلامُ)!یہ خوشبو کیسی؟ کہا:فرعون کی بیٹی کی خادمہ اور اس کے بچوں کی خوشبو ہے۔(کنزالعمال، کتاب الفضائل، باب فی فضائل من لیسوا…الخ، جزء:۱۴، ۷/۱۰، حدیث: ۳۷۸۳۴ ملتقطاً و ملخصاً)

سبحان اللہ العظیم!!!! دیکھا آپ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن اس نیک خاتون نے اپنا ایمان نہ دیا

حضرت سَیِّدُنا امام محمدغزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ انہی کے بارے میں نقل فرماتے ہیں:حضرت سُفیان ثَوری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ بوقتِ وفات رونے اور چِلّانے لگے۔ لوگوں نے دِلاسہ دیتے ہوئے عرض کی :یا سیِّدی !گھبرائیے نہیں، اللہ پاک کی رَحمت پر نظر رکھئے۔ فرمایا : بُرے خاتِمے کا خوف رُلا رہا ہے،اگر ایمان پر خاتِمے کی ضَمانت مل جائے تو پھر مجھے اِس بات کی پروا نہیں اگر چِہ پہاڑوں (Mountains)کے برابر گناہوں کے ساتھ اللہ پاک سے ملاقات کروں۔

ایک طویل حدیثِ پاک میں ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ بھی ارشادفرمایا:اولادِ آدم مختلف طبقات پر پیدا کی گئی ان میں سے (1)بعض مومن پیدا ہوئے حالتِ ایمان پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں گے، (2)بعض کافر پیدا ہوئے حالتِ کفر پر زندہ رہے اور کافِر ہی مریں گے، (3)بعض مومِن پیدا ہوئے مومِنانہ زندگی گزاری اور حالتِ کفر پر رخصت ہوئے، اور (4)بعض کافِر پیدا ہوئے ،کافِر زندہ رہے اور مومِن ہو کر مریں گے

معلوم ہوا کہ اصل کامیابی صرف دُنیا میں مومن و مسلمان ہونا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مرتے وقت اپنا ایمان سلامت لے جانا ہے__

آج جو لوگ کافروں کے طرز عمل کو اپنا رہے ھیں کافروں کی محبت دل میں لئے بیٹھے ہیں ان کی محبت میں ان کے ساتھ دوستی کرتے ہیں ان کے ساتھ کھاتے پیتے ، خوشی سیلیبریٹ کرتے ، کافروں کو اپنی دعوت میں بلاتے ان کے گھر آتے جاتے اور کہتے ہیں کہ بس وہ اچھا آدمی ہے ہم تو بس یوں ہی تعلق رکھتے ہیں
وہ بھی سن لیں !!!!!! یہ غیروں سے دوستی ، غیروں سے تعلقات ، غیروں سے محبت تمہیں لے ڈوبے گی یاد رکھیں۔

حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یَارسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ایک شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتاہے مگر اُن جیسے اَعمال نہیں کرسکتا؟ فرمایا:اے ابو ذر! تم اُسی کے ساتھ ہوگے جس سے تمہیں محبت ہے۔ میں نے عرض کی:میں اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرتا ہوں۔ارشاد فرمایا:اے ابو ذر! تم جس کے ساتھ محبت کرتے ہو اس کے ساتھ ہی رہوگے۔

اب بیٹھ کر سوچیں کہ ہماری دوستی کس سے ہے ، ہم کس سے محبت کرتے ہیں ، اسی سے محبت کریں جن کے ساتھ قیامت میں اٹھنا چاہتے ہیں !!!!!!
ظاہر ہے قارون ، ہامان فرعون کے ساتھ اٹھنا نہیں چاہیں گے کیوں کہ یہ سب دوزخی ہیں تو پھر محبت بھی انہی سے کرو نا جن کی شفاعت کی آرزو ہے ، جن کے کوثر کی آرزو ہے ، جن کے دامن کی آرزو ہے ، جن کے نظر کرم کی قیامت کے دن آرزو ہے
ارے ! آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

آج محبت کریں آج اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں آج حضور تاجدار ختم نبوتﷺ پر قربان ہوجائیں آج دین پر عمل کریں
پھر یہ ہوگا کہ

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یہ دین مشکل نہیں ہے آسان ہے یہ دینِ فطرت ہے اسی نے دنیا کو زندگی کا شعور دیا ہے اس سے بہتر کسی دین میں تعلیمات نہیں ہیں
یہ وہی دین ہے جو آپ کی حفاظت کرتا ہے دنیا کے شر سے بھی آخرت کے عذاب سے بھی دنیا میں بھی کامیابی یہی دین دلائے گا اور آخرت میں بھی آپ کو سرخرو کرے گا

اللہ پاک سے دعا ہے حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ کے صدقہ و طفیل ہم سب کو دین پر ثابت قدم رکھے خاتمہ بالخیر عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے