سیاست و حالات حاضرہ مذہبی مضامین

جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی

تحریر: محمد ایوب مظہر نظامی

علماء کی سیاست میں شراکت داری پر مفتی انصار احمد مصباحی صاحب نے بہت اچھا مضمون لکھا ہے، زیر نظر مضمون ان کی فکری پختگی کی عمدہ مثال ہے،ایک صالح معاشرہ، ایک ستھرا سماج اور پاکیزہ سوسائٹی کے لئے دو چیزیں مطلوب ہیں، ایک وعظ و پند اور تبلیغ و ہدایت کا راستہ، دوسرے آئینی حصار اور قانونی ناکہ بندی، اور آئین و قانون کے نفاذ کے لئے قوت و اقتدار مطلوب ہے، لہذا مذہب و سیاست دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، مذہبی اصول پر چلنے اور چلانے میں سیاسی قوت کا بڑا دخل ہے، سعادت مند تبلیغ و ہدایت قبول کرے گا اور شرارت پسند کو قانون کا تازیانہ راستہ پر لے آئے گا،
مذہب و سیاست کو دو الگ الگ خانے میں باٹنے والے شاید اس نکتے تک نہیں پہنچ سکے کہ زاہد کا زہد اس کے دامن کو معصیت کی آلودگی سے تو ضرور بچا سکتا ہے مگر سماج میں منفی کردار کا زہر پھیلانے والوں کو قانون کی بالادستی ہی بے راہ روی سے باز رکھ سکتی ہے، آپ کا دامن احتیاط آپ کو تقدس مآب تو ضرور بنا سکتا ہے مگر وہ پوری ملت کی صلاح و فلاح کا کفیل ہرگز نہیں بن سکتا،

تاریخ کے اوراق میں جھانک کر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ خیر مجسم ﷺ نے اپنی دس سالہ مدنی زندگی میں وہ کچھ کر دیکھا جو تیرہ سالہ زندگی میں نہ دیکھا جا سکا، ظاہری وجہ اس کے سوا کچھ نہیں بتائی جا سکتی ہے کہ مکہ مکرمہ میں انفرادیت تھی، عرض و معروض کا راستہ تھا اور تبلیغ و دعوت کے صرف مخلصانہ جذبات تھے، جسے سعید روحوں نے قبول کیا، خیر پسند طبیعتوں کے دل جھکے اور نیکوکاروں نے اطاعت قبول کی، اور مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو اجتماعی زندگی نصیب ہوئی، نیک سیرت لوگوں پر مشتمل ملی تنظیم بنی اور صالح افراد کی نگرانی میں
ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ہوئی جس کے ذریعہ اصلاح عمل کے قیمتی دفعات نافذ کی گئیں، یہاں وعظ و پند کا راستہ بھی اپنایا گیا اور زجر و توبیخ کا دروازہ بھی کھولا گیا، افہام و تفہیم کا سلسلہ بھی رکھا گیا اور بے راہ روی کے سد باب کے لئے قانونی بالادستی کے ذریعہ سزاؤں کی گنجائش بھی رکھی گئی، اب انجام کار جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ سلیم طبیعت افراد نیکوکاروں کی رویش پر چل رہے تھے اور شر پسند افراد قانون کے تازیانہ کے خوف سے ہدایت قبول کر رہے تھے، وعظ و نصیحت کا راستہ جن کی طبیعت سے ہم آہنگ نہ ہوتا، قانونی گرفت بڑی آسانی سے انہیں راہ پر لے آتی،

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو!
جدا ہو دیں سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی!

لہذا موجودہ زوال آمادہ سیاسی سسٹم کے پیشِ نظر قوم و ملت کی تحفظ و بقاء اور عروج و ارتقاء کے لئے مذہبی تشخصات کے ساتھ علماء کا سیاست میں حصہ لینا وقت کا عین تقاضا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے