ذی الحجہ مذہبی مضامین

جانور کے ساتھ تمام بری خصلتوں اور محبوب چیزوں کو قربان کرنا قربانی کی اصل غایت ہے

ازقلم: ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ M.A., M.Com., Ph.D (Osm)

قربانی مجرد جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ قربانی کی اصل غرض و غایت یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی تمام بری خصلتوںاور محبوب و عزیز چیزوں کو قربان کردے۔ انسان کو سب سے زیادہ اپنی جان عزیز و محبوب ہوتی ہے لیکن حضرت سیدنا ابراہیمؑ نے رب کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی جان کا نذانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ فرمایا تو خالق کونین نے آتشکدہ نمرود کے دہکتے ہوئے انگاروں اور بھڑتے ہوئے شعلوں کو آپ کے حق میں راحت و آرام کا باعث بنادیا۔ اس واقعہ میں امت مسلمہ کے لیے درس ہے کہ آج بھی ہم اسوۃ ابراہیم پر سختی سے عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا کی تمام مشکلات سے مرعوب ہوئے بغیر جرأت و پامردی کے ساتھ نہ صرف بہ آسانی مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ عدیم النظر کامیابیاں بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ حشر و نشر اور حیات بعد الموت کا تصور متعدد قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے۔ سورۃ البقرۃ میں حضرت سیدنا ابراہیم ؑ کو حیات بعد الموت کا مشاہدہ کروانے کا ذکر موجود ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیمؑ (جنہیں احیاء الموتی (یعنی مردوں کو زندہ کرنا) کا علم الیقین تھا ) نے اپنے رب کے حضور التجا فرمائی کہ مولامجھے دکھا تو مردوں کے پراگندہ اور منتشر اجزاء کو قیامت کے دن کیسے اکٹھا فرمائے گا اور ان مُردہ لوگوں کو کیسے از سر نو زندہ فرمائے گاتاکہ مجھے قلبی اطمینان ، علم الاستدلال اور عین الیقین کا مرتبہ نصیب ہوجائے۔ آپ کو حکم دیا گیا کہ مختلف انواع کے چار پرندوں کو ذبح کریں اور ان کے گوشت کو آپس میں ملادیں اور اس کو چار حصوں میں تقسیم کردیں پھر ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑی پر رکھ دیں۔ پھر ان پرندوں کو اپنی طرف بلائیں اور اپنے رب کی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کریں۔ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑنے اس حکم کی تعمیل فرمائی تو آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ متفرق بوٹیاں اکٹھی ہوئیں، بکھرے ہوئے پر جمع ہوگئے اوروہ پرندے پھڑاپھڑاتے ہوئے جلدی جلدی حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ مشہور روایات اور صوفیانہ تفسیر کے مطابق حضرت سیدنا ابراہیمؑ نے مور، مرغ، کبوتر اور کروے کو جمع فرمایا تھا جن میں سے ایک ہر پرندہ انسان کی مخصوص صفت و جذبہ کا مظہر ہے۔ مور خودنمائی ، زیبائش اور تکبر کا مظہر ہے، مرغ شدید جنسی خواہشات و میلانات کا مظہر ہے، کبوتر لہوو لعب اور کھیل کود کا مظہر ہے اور کوا حرص اور لمبی چوڑی آرزوئوں و تمنائوں کا مظہر ہے۔یہ وہ خصائل رذیلہ ہیں جن سے انسان کا دل مرجاتا ہے اور وہ جانور سے بد تر بن جاتا ہے اور دوسری طرف جب یہی انسان ان اخلاق رذیلہ کو قربان کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کے مردہ دل پر انوار، مکاشفات اور تجلیاتِ الہیہ کی بارش ہونی شروع ہوجاتی ہے جس کے باعث اس کا مردہ دل زندہ ہوجاتا ہے اور و ہ شخص پوری انسانیت کے لیے نعمت غیر مترقبہ بن جاتا ہے۔علامہ غلام رسول سعیدیؒ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 260 کی تفسیر کے ضمن میں علامہ بیضاوی ؒکے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ’’اس میں یہ اشارہ ہے کہ نفس انسانی کو حیات ابدیہ اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنی شہوات اور حسن و زیبائش کو ذبح کردے جو مور کی صفت ہے اور دوسروں پر حملہ کرنے کے جذبہ کو فنا کردے جو مرغ کی صفت ہے اور اپنی خواہشات کو جلدی پورا کرنے کی عادت کو دور کردے جو کبوتر کی صفت ہے نفس کی خساست اور گھٹیاپن کو دور کردے جو کوے کی صفت ہے‘‘۔ گویا اس واقعہ میں امت مسلمہ کے لیے یہ پیغام ہے کہ مسلمان اگر متقی و پارسا بننا چاہتا ہے، عزت نفس و بلند نظری، ایثار و قناعت پسندی، خلوص و بلند ہمتی والی پاکیزہ زندگی اور ساری عزتوں سے بڑی عزت، ساری راحتوں سے بڑی راحت اور ساری دولتو ںسے بڑی دولت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ خودستائی، نفسانی خواہشات، لہو و لعب کی زندگی اور طویل آرزئوں و تمنائوں الغرض تمام مذموم صفات کو قربان کردے اور یہی قربانی کی اصل حکمت بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے کہ قربان شدہ جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز خدا تک ہیں پہنچتا بلکہ اس کے حضور تمہارا تقوی اور نیک اعمال پہنچتے ہیں ۔مسلمانوں کو قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ قربانی کے تصور خون بہانے اور گوشت تقسیم و استعمال کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ قربانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان کو تقوی و طہارت کے منازل طے کرواکر انسان کو کامل بنادیا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان جانور کے ساتھ تمام محبوب اشیاء اور بری عادتوں کو قربان کردے۔ لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بعض مسلمان جانور کی قیمت اور تعداد لوگوں کے سامنے فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں جبکہ ہر عمل صالح میں خلوص و للہیت کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ ہماری یہ ریاکاری نہ صرف ہمارے غرور و تکبر کا مظہر ہے بلکہ ہمارے نفسانی خواہشات کے اسیر ہوجانے کی بھی بین دلیل ہے۔ جبکہ اسلام کے بنیادی معنی ہی یہ ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات کو رب کی چاہت کے تابع کردے۔ اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ بڑے خسارے میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ زہد و تصوف کی کتب میں حضرت حسن بصری ؒ سے یہ روایت منقول ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت دائودؑ سے فرمایا: اے (میرے بندے )ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، اگر تو میری چاہت پر اپنی چاہت کو قربان کردے تو میں تیری چاہت میں تیری کفایت کروں گا (یعنی تیری چاہت بھی پوری کردوں گا) اور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا۔ اوراگر تو میری چاہت پر اپنی چاہت کو قربان نہ کرے تو میں تجھ کو تیری چاہت میں تھکا دونگا (یعنی پوری کوشش کے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں ہوگی) اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میں چاہوں گا۔ نفسانی خواہشات کے اسیر ہونے ہی کا خمیازہ ہے کہ آج مسلمانوں نے تعلیم جیسے مقدس پیشہ کو بھی تجارت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ آج کے دور میں امت مسلمہ کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن کی بنیادی اور اہم وجہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ہے جس میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ غیروں سے کیا گلہ خود ہم نے حصول علم کے عمل کو اس قدر مشکل اور مہنگا بنادیا کہ غریب اپنی اولاد کو علم کے زیور سے آراستہ کروانے کا تصور بھی نہیں سکتا۔مسلمانوں کے بہت سارے تعلیمی ادارے ایسے ہیںجہاں تعلیمی معیار سے زیادہ حصول دولت کو ترجیح و فوقیت دی جارہی ہے۔ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں انتظامیہ کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری پر اپنا لوگو لگاکر دگنی قیمت وصول کی جارہی ہے اور اولیائے طلباء کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ یہ اشیاء کہیں اور سے نہ خریدیں بلکہ صرف اور صرف اسکول سے یا وہاں سے حاصل کریں جہاں سے اسکول انتظامیہ لینے کو کہے۔کیا دھوکہ دہی نہیں ہے؟ ہماری اس غلط روش نے موجودہ دور میں تعلیم کو فروغ دینے والے مراکز یعنی اسکولوں کو کاروباری مراکز میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ تعلیم کو فروغ دینا بحیثیت مسلمان ہم سب کی ذمہ داری ہے۔متعدد کتب حدیث میں یہ روایت میں منقول ہے کہ تاجدار کائناتؐ نے انصاری بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے عوض غزوہ بدر کے قیدیوں کو رہائی عطا فرمادی۔ دوسری جانب ہم مسلمان ہیں جو اپنے بنائے خود ساختہ اصول و ضوابط کے تحت من مانی فیس وصول کررہے ہیں جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے غریب بچے ایسے ہوں گے جو تعلیم سے محروم ہو کر اپنے مستقبل کو تاریک بنارہے ہوں گے۔ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں جب ہم خود نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے مستقبل سے کھلواڑ کررہے ہیں تو ہمیں کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ہمیں اجتماعی طور پر اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ جانور کی قربانی کے ساتھ محبوب ترین اشیائ، نفسانی خواہشات اور دیگر اخلاق رذیلہ کو بھی قربان کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے