غزل

غزل: تم بھی اُلجھی ہوئی لڑی،،ہو کیا

از قلم: دلشاد دل سکندر پوری

تم بھی اُلجھی ہوئی لڑی،،ہو کیا
سچ کہو میری زندگی،، ہو کیا

ہاتھ کنپتے ہیں تم کو چھونے سے
تم ابھی کمسنی کلی ہو کیا

بھید کھلتے نہیں ترے مجھ پر
میر و غالب کی شاعری ہو کیا

دیکھتا ہی نہیں کوئی تم کو
میری خاطر ہی تم بنی ہو کیا

یہ مجھے نیند کیوں نہیں آتی
میرے خوابوں میں بس گئی ہو کیا

بن ترے ہر غزل ادھُوری ہے
میری غزلوں کی نغمگی ہو کیا

میری آنکھوں میں درد کیسا ہے
رات بھر آج تم جگی ہو کیا

میرے بارے میں جانتی ہو سب
دل سے پہلے کبھی ملی ہو کیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے