تحریر: طارق انور مصباحی
ہماری مساجد ومدارس اور تنظیمات وتحریکات ہماری مذہبی وراثت ہیں۔اسی طرح حضرات اسلاف کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے متوارت عقائد ومسائل بھی دینی وراثت ہیں۔
مذہبی ودینی وراثتوں کی حفاظت وصیانت اور اس میں دخل انداز ہو جانے والی خامیوں کی اصلاح وثصحیح لازم ہے۔ہم کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے کہ ہماری وراثتیں تباہی وبربادی سے دوچار ہو جائیں۔
رفتہ رفتہ ہمارے درمیان یہ فیشن جڑ پکڑتے جا رہا ہے کہ ہم اپنی وراثتوں کی پامالی کے اسباب کو ہوا دے رہے ہیں۔کبھی بریلی شریف کی مرکزیت پر انگشت نمائی کی جاتی ہے۔کبھی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔کبھی دعوت اسلامی کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔بسا اوقات متوارث عقائد ومسائل کے خلاف تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔یہ تمام امور ہماری تباہی وبربادی کی طرف لے جانے والے زہریلے اسباب ہیں۔
حالیہ چند دنوں سے بعض بے لگام زبانیں دعوت اسلامی کے خلاف میڈیا میں زہر افشانی کر رہی ہیں۔دراصل بعض لوگ میڈیا میں اپنی بات پیش کر دینے کو کمال معراج سمجھتے ہیں,حالاں کہ آج بھی اصحاب علم وفضل میڈیا سے خود کو دور رکھتے ہیں۔انڈین میڈیا کئی سالوں سے اسلام ومسلمین کو بدنام کرنے میں مشغول ومصروف ہے۔اب ایسے مخالف اسلام میڈیا کو اپنے خلاف مواد فراہم کرنا یقینا بڑی عقل مندی اور دانش وری ہے۔کوشش کرتے رہیں,ممکن ہے کہ کوشش کبھی رنگ لائے,لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دشمن فلاں کے خلاف آپ کو استعمال کرے گا اور آپ کے خلاف فلاں کو استعمال کرے گا۔میر جعفر اور میر صادق کی بدحالی وبد انجامی اہل ہند سے پوشیدہ نہیں۔
دعوت اسلامی ایک غیر سیاسی اور عالم گیر تحریک ہے۔یہ دو سو سے زائد ممالک میں مذہب اہل سنت وجماعت کی تعلیمی,تدریسی,تبلیغی,اشاعتی اور تعمیری خدمات انجام دیتی ہے۔ان ممالک کے پاس انٹلی جنس کے محکمے اور شعبے ہیں۔ان ممالک کے انٹلی جنس کے محکموں نے دعوت اسلامی کو کلین چیٹ دے رکھی ہے۔ایسی صورت میں کسی کی زہر افشانی سے کچھ نقصان ہونے کی امید نہیں۔سورج پر تھوک پھینکو گے تو منہ پر آ کر پڑے گا۔
جب تک دعوت اسلامی مسلک اہل سنت وجماعت پر کار بند اور اس کے عقائد ومسائل کی پابند ہے,ان شاء اللہ تعالی تب تک ہم اس کی تائید وحمایت کریں گے۔
اہل سنت وجماعت سے ہونے کا دعوی تو اہل دیوبند اور سلفیان ہند وعرب کو بھی ہے,لیکن دعوت اسلامی اعلی حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے۔
ہمارے پاس تحریک کے اہم ذمہ داروں کا مستحکم اقرار موجود ہے کہ:”مختلف فیہ فقہی مسائل کے علاوہ اگر دعوت اسلامی میں کوئی بات مسلک اعلی حضرت کے خلاف ہے تو ہم سانس بعد میں لیں گے اور توبہ پہلے کریں گے”-
فقہی مسائل میں اختلاف بھی علما وفقہا کا ہوتا ہے,نہ کہ دعوت اسلامی کے ذمہ داروں کا۔یہ عوام اہل سنت کی ایک تحریک ہے۔مرکزی ارکان میں علمائے کرام شامل نہیں۔
بعض علمائے اہل سنت نے ٹی وی کے مسئلہ کے سبب دعوت اسلامی پر تنقید کی ہے,لیکن آج تک کسی ذمہ دار عالم نے دعوت اسلامی کو دہشت گرد تنظیم نہیں کہا ہے۔
ہمارے دانشوران جو منطق پیش فرما رہے ہیں,اسی منطق کے اعتبار سے دشمنان اسلام مذہب اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیتے ہیں۔دونوں کا استدلال درج ذیل ہے۔
(الف)بعض خود ساختہ دانشوران اسلام فرماتے ہیں کہ فلاں دہشت گرد کا تعلق فلاں تحریک سے ہے,لہذا وہ تحریک دہشت گرد ہے۔
(ب)بہت سے متعصب دشمنان اسلام کہتےہیں کہ فلاں دہشت گرد کا تعلق مذہب اسلام ہے,لہذا مذہب اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے۔
دراصل دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں,بلکہ خود اس شخص ہے جس سے یہ جرم صادر ہو۔
دنیا بھر میں چوری وڈکیتی,بدکاری وزناکاری,قتل وغارت گری اور بے شمار جرائم ہوتے رہتے ہیں۔ایسے جرائم کے تمام مجرمین لامذہب نہیں ہوتے,بلکہ ان میں سے اکثر لوگ کسی مذہب سے منسلک ہوتے ہیں,کیوں کہ ابھی دنیا میں لا مذہبوں کی تعداد بہت کم ہے۔ان جرائم کے سبب مجرمین کے مذہب کو دہشت گردی کا مذہب نہیں مانا جاتا,لہذا دشمنان مذہب اسلام اور مخالفین دعوت اسلامی کا استدلال فریب نظر اور مغالطہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔