تحریر: عین الحق امینی، بیگوسراے
بھارت اور نیپال سمیت ایشیا کے مختلف حصوں میں یہ تہوار منایا جاتا ہے ،یہ تہوار اگرچہ اچھی فصل کی شکرگذاری دوسروں کومعاف کرنے اور برائی پر اچھائی کی علامت کے طور پر منایا جاتا رہاہے ،مگر دھیرے دھیرے اب عملا اس کی روح کے منافی عمل نے اس کی اہمیت ان لوگوں میں کم کردی ہے۔
حقیقت سے پہلوتہی کی وجہ سے اب اس طرح کے تہواروں میں لوگوں کی پہلی جیسی نہ عقیدت رہی اور نہ سنسکرتی ،اسی لئے مذہبی جوش وجذبہ اور عقیدت ومحبت سے خالی خولی یہ تہوار اب خالص سیاسی ہوکر رہ گیا ہے ،جہاں من چلے اوباش قسم کے لوگ ہی زیادہ تر اس کو ہنی مون کے طرز پر منانے کے عادی ہوتےہیں ۔سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقہ تو بس ایک رسمی زاوئیے سے ہی دیکھنے لگے ہیں اور اب وہ بھی اکثر ان جیسی واہیات سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں ۔البتہ غیر مسلم عورتیں مردوں کے مقابلے آج بھی زیادہ مذہب پرست ہوتی ہیں اور وہ ہولی جیسے تہواروں کی روایات کو زندہ رکھے ہوئی ہیں ۔
مگر اس کے برعکس مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ ہے جو سیاسی مفاد کی خاطر یکجہتی ،امن وبھائی چارہ اور سماجی ہم آہنگی کے نام پرمداہنت پر اتارو ہے ،وہ من چاہی جواز پیدا کر رواداری کے حوالے سے مذہبی امور میں شریک ہونا باعث فخر اور سماج کے لئے نیک فال سمجھ رہاہے ۔ جب کہ یہ بات ہرمسلمان کے ذہن میں ہونی چاہئے کہ مذہبی امور میں شرکت سے کبھی بھی نہ رواداری پیدا ہوئی ہے اور نا ہی یکجہتی ۔رواداری اور یکجہتی کے قیام کے لئے بہترین چیز معاملات کی صفائی اور سماجی ،اخلاقی اور انسانی تقاضوں کے لئے رضاکارانہ طور پر ایک دوسرے کے تئیں مدد کا ہاتھ بڑھانے سے ہوتا ہے ۔ہمارا طبقہ بے وجہ گناہ بے لذت کا شکار ہوکرمذہبی امور میں بذات خود شریک ہوتا ہے اور عملا وہ سارے کام ان سے کرائے جاتے ہیں ،جو شرک میں داخل ہیں ۔
اگر بات صرف بیر گلال کی حد تک ہوتی تب بھی تا ویل وتوجیہ کے ذریعے کچھ گنجائش نکالی جاسکتی تھی ،مگر پانی سر سے تب اونچا ہوجاتا ہے جب ہمارا نوجوان تلک دھاری بن کر مذہبی رسومات کو اداکرنے ان کی خصوصی مجلسوں میں شریک ہوکر ان امور کو انجام دیتا ہے جو ایک حق پرست اور توحید کے پرستاروں کے لئے حرام کے درجے میں ہیں ۔
شاید یہ خیال کیا جاتا ہوگا اور ذہن کو یہ دلیل دے کر سمجھانے کی کوشش ہوتی ہوگی کہ سماجی زندگی میں راہ ورسم کو نبھانا بھی فرض ہے ،لیکن سمجھنا چاہئے کہ فرضوں کی حیثیت میں بھی کٹیگریز ہیں ،جن کی رعایت بھی بہر حال بہت ضروری ہے ، راہ ورسم کا نبھا نا بے شک اچھی بات ہے ،مگر ہمارے جس عمل سے ایمانی ڈھانچہ متزلزل ہوتا ہو ،توحید باری تعالیٰ کی شان میں شرکت غیر لازم آتی ہو ،یہ رواداری نہیں ہے اور نہ ہی اسے یکجہتی سے تعبیر کرسکتے ہیں ،عقیدے سے جو چیز تعلق رکھتی ہو ،غیروں کے ساتھ ان امور میں شمولیت یکجہتی نہیں کہلائے گی ،بلکہ اس کو مداہنت کہتے ہیں اور ذہن میں محفوظ رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسلام مذہب میں مداہنت گوارہ نہیں ہے۔
اس لئے ہولی کے موقع پر یا غیروں کے تہواروں کے سلسلے میں” دانشوری ” کی خوشنمائی سے زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے ،خود کو بھی ایسی ایمان سوز واہیات سے بچنا چاہئے اور بچوں سمیت گھر کی عورتوں میں بھی اس بات کا مذاکرہ ہونا چاہئے ،انہیں بتایا جائے کہ ہر ایسا عمل جس سے غیروں کی مشابہت ہوتی ہو اور غیروں کے طور طریقوں کی حوصلہ افزائی عقیدت کی حدتک ہوتی ہو وہ ناجائز اور گناہ کے کام ہیں ،اچھے مسلمان ان گناہوں سے بھی اپنے آپ کو بچاتے ہیں ۔