از: محمد شہروز کٹیہاری
موہنا چوکی ،کدوا، کٹیہار بہار
ہندوستان میں مسلمان اقلیتوں میں اکثریت کے حامل ہیں- اپنی آبادی کےتناسب سے ہر میدان میں انحطاط میں ہیں – چھوٹی موٹی سرکاری ملازمت سے لے کر آفیسرز کے عہدوں تک،تجارت و زراعت سے لے کر سیاست و اقتدار تک ان کا شرح تناست افسوس ناک حد تک کم ہے – اس کی ایک وجہ حکومت کا تعصب اور فرقہ پرستی بھی ہو سکتی ہے – مگر مکمل اسی کو دوش ٹھہرانا میرے نزدیک اپنا ٹھیکرا دوسرے کے سر پھوڑنے کے مصداق سے زیادہ کچھ نہیں – کامیابی محنت کشوں کو ضرور ملتی ہے ،اس کلیہ سے تقریبا سبھوں کو اتفاق ہے – کشن گنج کے ایک مولانا ہیں ،یہ میرے شاگرد بھی رہ چکے ہیں – بہار مدرسہ بورڈ سے مولوی پاس زمانہ طالب علمی ہی میں کر چکے ہیں – درسیات سے بے توجہی دیکھ کر میں نے مشورہ دیا تھا کہ مولوی کی سرٹیفیکٹ دکھا کر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ور سیٹی کے کسی سینٹر سے گریجویشن (فاصلاتی) کرلو، پھر بی – ایڈ ،اور پھر ایم-اے (اردو )کرلینا، پھرکسی بھی صوبہ میں اردو زبان کا جونیئر لکچرر بن سکتے ہو بہ شرطے کہ اردو مضبوط کرلو – ہائی اسکولوں میں اردو ٹیچرس کی بحالیاں ہوتی رہتی ہیں – انہوں نے ایک نہ سنی اور جیسے تیسے وقت گزاری کرکے درس نظامی سے فارغ ہو گیے -ملازمت کی تلاش میں سعودی عرب تک پہونچ گیے – اب انہیں شدت سے سرکاری نوکری کی تلاش ہے – جب بھی بات ہوتی ہے یہی خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت! سرکاری نوکری چاہیے ،چاہے روپیہ جتنا لگ جائے – ایک دن ان کا شکوہ تھا کہ حضرت ! سرکاری نوکری مل نہیں رہی ہے ،سرکار مسلمانوں کو بے روزگار ہی رکھنا چاہتی ہے – ” پہلے ڈکریاں تو حاصل کرلو پھر نوکری تلاش کرنا”یہ جملہ میں نے ذرا کرخت لہجے میں کہہ دیا تو بہت دنوں سے فون کرنا بند کردیے- پہلے تو مجھے افسوس ہوا، مگر اب محسوس کرتا ہوں کہ مولانا کی شکایت حکومت سے بجا تھی – آخر سرکار نے مولوی پاس والوں کو پرائمری اسکول کا ماسٹر بنایا – مدارس میں مولوی پوسٹ پر مولوی ڈگری سے ہی بحالیاں ہوتی ہیں – اردو مترجم کی بحالی بھی عن قریب اسی سرٹیفیکٹ سے ہونےوالی ہے – انٹر بیس پر تمام بحالیوں میں مولوی پاس کو بھی موقع دیا جاتا ہے – تو مولانا کو اب تک نوکری کیوں نہیں ملی؟ سرکار کا یہ دوہرا رویہ قابل مذمت ہے –
آج کل بہار مدرسہ بورڈ کے مولوی اور فوقانیہ کے امتحانات صوبہ بھر میں چل رہےہیں- اتفاق سے میری ڈیوٹی بھی ایک طالباتی سینٹر میں لگی ہوئی ہے – وہاں جو مجھے دیکھنے کو ملا شاید وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں – پورے مرکز میں دوچار بچیوں کے علاوہ(دوچار کا استثنا بھی حسن ظن پر مبنی ہے) ساری بچیاں صرف سوالیہ پرچہ نقل کررہی تھیں – نقل کیا کرہی تھیں، زیادہ تر پر چہ دیکھ دیکھ کر آڑی ٹیڑھی لکیریں کھینچ رہی تھیں – شاید وہ خود نہیں بتا سکتیں کہ کیا لکھ رہی ہیں – پرچہ حل کرنے کے طرز پر کہ پہلے سوال نمبر پھر جواب نمبر ڈال کر ایک ڈیڑھ صفحہ مکڑی اور مچھر کے پیر جیسی لکیریں کھینچ دیتیں ،ایسا بھی کچھ نہیں تھا – بس اول تا آخر صفحہ در صفحہ کچھ گوج کر کاپیاں بھرے جا رہی تھیں – اردو سے ناواقف شاید اردو زبان میں بھری کاپی سمجھ کر مطمئن ہوجائیں – مگر در حقیقت یہ اردو نہیں بلکہ کوئی اور ہی زبان ہوگی، جسے طلبہ و طالبات سمجھتی ہوں گیں ،یا پھر ساٹھ پینسٹھ فیصد نمبر دے کر پاس کرنے والے قوم کے خیر خواہ ممتحنین حضرات – اس سے اچھا تو وہی زمانہ تھا – ہمارے طالب علمی کا زمانہ – لالو جی کے اقتدار کا زمانہ – اس وقت امتحانی سینٹر مدارس ہی میں ہواکرتے تھے – نگراں اور سی – ایس بھی مدارس کے اساتذہ ہوتے – امتحانی سینٹر میں داخل ہوتے وقت جامہ تلاشی ہوتی نا کوئی روک ٹوک – ایک ایک امیدوار کے دو دو،تین تین تک مددگار داخل ہو سکتے تھے – بڑی بڑی چٹایاں بچھادی جاتیں ،گائڈ یا پرچہ کی مناسبت سے کوئی کتاب کھول دی جاتی -کتاب کے چاروں طرف امیدوار بیل گاڑی کے پہیے کی طرح دائرہ بناکر بیٹھ جاتے – سر سے سر جوڑ کر ،نیم سجدہ کے برابر سر جھکا کر کاپیاں بھرنے میں مصروف ہوتے – جیسےفارم کی مرغیاں ڈربے میں گول برتن سے مل جل کر دانا چگ رہی ہوں – پرچہ نقل کرنے یا پھرہجے کرکے لکھنے کا تو کوئی تصور ہی نا تھا- کبھی کسی کو لکھنے میں دقت ہوتی تو خیر خواہان ملت مدد کو تیار – برا ہو نتیش جی کا! انہوں نے تو قوم مسلم کا بیڑا ہی غرق کردیا – اولا سینٹر مدارس کے بجائے اسکولوں میں کر دیا – پھر نگراں اور سی – ایس اسکولی اساتذہ کو بنا دیا – اس پر بھی زیادہ تر ایسے اساتذہ کو جو اردو سے بالکل ہی نابلد(غیرقوم) ہوتے ہیں – پھر امتحانی مرکز میں داخل ہوتے وقت وہ تلاشی لی جاتی ہے کہ توبہ! توبہ!گیٹ کے پاس والے بر آمدہ کو قد آدم سے بھی اونچے پردے سے گھیر دیا جاتا ہے – ضلع سے کچھ خواتین مجسٹریٹ بن کر آتی ہیں – وہ جملہ طالبات کی ایک ایک کرکے اس پردے کے اندر پتہ نہیں کیا کیا تلاشی لیتی ہیں -جہاں ایسی سختی ہوبھلا کسی کی کیا مجال کہ امتحان حال میں کوئی چٹ یا کتاب لے جا سکے –
جس سینٹر پر میری ڈیوٹی لگی تھی ،وہ طالبات کے مختص تھا – مگر شاید انتظامیہ کی غلطی سے درس نظامی کے ایک طالب علم کا بھی وہیں سینٹر پڑ گیا – اونچی برکاتی ٹوپی ،صاف شفاف سفید کپڑا ،موزے کے ساتھ سیاہ فام چمڑے کا جوتا پہنا تھا،قدو قامت اور شکل و صورت میں بڑا جچیلا تھا – خوش پوشاکی سے خوش حالی ظاہر تھی- کسی کے پوچھنے پر میزان و منشعب کا طالب علم ہونا بتایا – میں سمجھا حافظ قران ہوگا اس لیے ابھی اولی ہی میں ہے – مگر مزید کریدنے پر میرا گمان غلط ثابت ہوا – درجہ جان کر مجھے یقین ہو چلا تھا کہ قدوری اور ازھار العرب کا پرچہ خود سے حل نہیں کر سکتا ،کیوں کہ یہ کتابیں کم ازکم میزان و منشعب سے اوپر کے درجے کی ہیں – پر طالبات سے اس کی اردو اچھی ہوگی ،میری طرح کئی لوگوں نے ایسا حسن ظن پال رکھا تھا – عربی ادب کے پرچے میں میری ڈیوٹی اسی کلاس روم میں لگی جہاں اس طالب علم کا رول نمبر چسپاں تھا – کاپی پر محافظ کی حیثیت سے دستخط کرنے پہونچا اور ایک نظر کاپی کے اندرونی صفحات پر دوڑادی – سچ پوچھیئے تو حیرت کی انتہا نا رہی – دیہاتی طالبات کو بھلا گھریلو ذمہ داریاں تعلیم کا موقع ہی کب فراہم کرتیں؟ – کچھ محنتی طالبات وقت نکال بھی لیتی ہیں تو اساتذہ کی کمی کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے – جنہیں اساتذہ بھی میسر ہوں تو انگریزی ،ہندی ،سائنس ودیگر عصریات سے انہیں فرصت کہاں؟- مگر مستقل طور پر اپنے آپ کو اردو ،عربی اور فارسی کے لیے وقف کرنے والے طالب علم کی اردو دیدنی تھی – طالبات اور اس میں صرف اتنا فرق تھا کہ وہ پرچہ کی نقلیں اتارنے کے بجائے جو کچھ بھی لکھ رہا تھا اپنی یاد داشت سے لکھ رہا تھا،اس کے علاوہ باقی سب same to sameامتحانی پرچوں کی بات کریں تو کمپوزنگ کی غلطیاں عام سی بات ہے – ایک پرچہ تو ایسا بھی تھا کہ کل مفروضہ نمبر سو تھے – چھ سوالوں کے جوابات مطلوب تھے اور ہر سوال کے تحت بیس بیس نمبر درج تھا – بیس بیس نمبر کے چھ سوالات کامجموعی نمبر سو ہوجانا مدرسہ بورڈ کے کیلکولیٹر ہی کا کمال ہو سکتا ہے۔ غر ض کہ مدرسے کے طلبہ سے لےکر مدرسہ بورڈ کے ڈمہ داران تک سب ایک قوم کے لوگ ہیں-