اصلاح معاشرہ مضامین و مقالات

نفس ظلم اور ظالم کا تصور

تحریر: شہزادہ آصف بلال سنگرام پوری

اللہ ربّ العزت کی بنائی ہوئی اس دنیا میں روزانہ بےشمار لوگوں کی ولادت ہوتی ہے اور نہ جانے کتنے لوگ اس آب فانی سے رحلت کر جاتے ہیں انھیں آنے والوں میں سے ہر اک شخص الگ الگ خوبیوں اور خامیوں کا حامل ہوتا ہے کوئ ظلم و جبر کا عادی ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ظالم کہلاتا ہے کوئ حق گوئی انصاف اور رقت قلب کا مجسمہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے رحم دل اور عادل کہلاتا ہے لیکن آج کے معاشرے (Society) کا جائزہ لیا جائے تو ہم نے ظلم کسی اور شئ کا نام رکھ دیا ظالم کسی اور کو قرار دینے لگے
ایسا کرنے کے آڑے صرف ایک شئ ہے وہ ہے ہماری بےحسی اور ہمارے بے حسی کا حال یہ ہے کہ اگر ہمارے خامیوں کو کوئ اجاگر کرتا ہے تو ہماری زبان برجستہ کہ اٹھتی ہے کہ ہم پر ظلم کر رہا ہے اگر کوئی بلا خوف و خطر کسی کی شخصیت کا پاس نہ رکھتے ہوئے حق گوئی کرتا ہے تو ہم اسے ظالم کہتے ہیں
خدارا خیال رہے کہ یہ ہرگز ظلم نہیں اور ایسے لوگ ظالم نہیں بلکہ ہمارے نظریہ کا فرق ہے اور ہمارا نظریہ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ ہم پر جاہ و جلال شان و شوکت اور حسب و نسب کا خمار چڑھ گیا ہے اور یہ خمار اتنا خطرناک ہے جس نے ہماری عقل پر پردہ ڈال دیا کہ ہم ظلم خود کرتے ہیں ظالم کسی اور کو کہتے ہیں
اب آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ کیسے ممکن ہے لیکن حیرت کی بات نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے وہ یوں کہ جاہ و جلال کو محبوب رکھنے والا شخص اپنے مقابل لوگوں کو کمتر اور حقیر سمجھتا ہے اور اس کا یہ غرور و تکبر خود اپنی ذات پر ظلم کرنا ہے شان و شوکت کا خواہاں کسی کو بھی اپنی خاطر میں نہیں لاتا یہ بھی ایک زاویہ سے ظلم ہی ہے ہر حسب و نسب کے غرور کا تاج پہننے والا اپنے آپ کو(Forward) یعنی اونچی ذات (خان , انصاری , پٹھان) وغیرہ میں شمار کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کو (Backward) نیچی ذات کا بتا کر ان کو اپنی طعنہ زنی کا شکار بناتا ہے یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا حقیقتوں کو اجاگر کرنے والا ظالم ہے یا غرور تکبر کے بحر عمیق میں غوطہ زن ہوکر لوگوں کو کمتر و حقیر بتا کر ان کی دل آزاری کرنے والا ظالم ہے
ایسی ہی نہ جانے کتنی برائیاں ہمارے اور آپ کے سینے میں پنپ رہی ہیں لیکن ہمیں اس کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں اس لئے کہ ہم اپنے ضمیر کو کبھی جھنجھوڑتے نہیں اپنے اندر کی برائیوں کو تلاش نہیں کرتے اور کسی کے آگاہ کرنے پر اپنی خامیوں کو تسلیم نہیں کرتے ان سب برائیوں کی وجہ ہمارے ایمان کی کمزوری اور اپنے مذہبی تعلیمات کا خیال نہ رکھنا ہے ہمارا مذہب یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم لوگوں کے عیبوں پہ پردہ ڈالیں اور اپنے باطن کو پاکیزہ بنائیں لیکن ہمیں اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات کا کچھ پاس نہ رہا اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام برائیوں سے گریز کرنے کی توفیق دے اور اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات کے طئ پاسدار بناۓ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے