مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اوراق بھی اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ خواہ دور ماضی کی بات کریں یا دور حاضر کی بہر حال جس کسی نے حق و صداقت پر پردہ ڈال کر دروغ گوئی کو بڑھاوا دیا اس کا انجام بد سے بد تر ہوا ہے
مگر یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ فی زماننا جو جس قدر تملق و چاپلوسی میں مہارت رکھتا ہے اس کا بظاہر اتنا ہی شہرہ ہوتا ہے اس وقت تک جب کہ اس کی تملق بازی عیاں نہ ہو جائے بر عکس اس کے ذلت ورسوائی کا طوق گلے میں ڈال دیا جاتا ہے اور دامن صداقت کی گرہوں کو مضبوطی سے تھامنے والے کا نام دور دور تک نظر نہیں آتا ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کے پیچھے کا ماجرا کیا ہے بڑی اختصار کے ساتھ بتاتا چلوں کہ جس جس کو دنیا کی رعنائیاں بھا جاتی ہیں اور اس کے شہد کو چکھ کر تلذذ کے حصول میں مبتلا ہو جاتا ہے پھر اس کو خواہ میدان چاپلوسی ہو یا کذب بیانی کا صحرا یا مکر و تزویر کی وادیاں ہوں ہر جگہ اپنی شہرت کا علم نصب کرتا ہے اور اسی کو اپنی کامیابی کی دلیل سمجھتا ہے مگر حیف ہے ایسی شہرت سے جس پر خدا رسیدہ بزرگوں کی لعنت ہو کامیاب و کامران تو وہ گمنام شخص ہے جس نے احقاق حق ابطال باطل کو اپنا وتیرہ بنایا جس کی مقبولیت رب لم یزل کی بارگاہ میں ہوتی ہے یہی حقیقی کامیابی کی دلیل ہے۔
کذب بیانی ایک ایسی وبا ہے جو پورے وجود کو مجروح کردیتی ہے بر عکس اس کے حقیقت بیانی پورے وجود کو مشکبار کر دیتی ہے۔ جھوٹ سننے میں تو چار حرف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر جب اس کے نتائج مرتب ہوتے ہیں تو شہر کے شہر گاؤں کے گاؤں تباہ و برباد کردیتا ہے یہ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں تمام ادیان میں یہ حرام ہے اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ہے قال اللّٰه تعالیٰ فی القرآن المجید ” والخامسة أن لعنت الله عليه ان كان من الكاذبين” یعنی اور پانچویں یہ کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر جھوٹا ہو ( سورة النور: أيت 7 ) کذب بیانی کی مذمّت احادیث مصطفیٰ ﷺ میں بھی ہے صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ” صدق کو لازم کرلو ، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ عز وجل کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (بہار شریعت ج ۳، ص ۵۱۵)
امام احمد و ترمذی و ابوداؤد و دارمی نے بروایت بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے اس کے لیے ہلاکت ہے ” ( بہار شریعت ج ۳ ص ۵۱٦ )
جھوٹ کے بھیانک نتائج پر کثیر احادیث ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔
جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی)
جھوٹ بولنا سب سے بڑی خیانت ہے۔(ابوداؤد)
لوگوں کوہنسانے کےلیے جھوٹ بولنے والے کیلئے ہلاکت ہے۔ (ترمذی)
لوگوں کو ہنسانے کےلیے جھوٹ بولنے والا دوزخ کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جوآسمان و زمین کے درمیانی فاصلے سے زِیادہ ہے۔ (شعب الایمان)
جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہوجاتاہے۔ (شعب الایمان)
جھوٹی بات کہنا کبیرہ گناہ ہے۔ (معجم الکبیر)
جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ (مسلم)
جھوٹ بولنے والے قیامت کے دن اللہ کریم کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ افراد میں شامل ہوں گے۔ (کنز العمال)
ان احادیث کریمہ سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ جھوٹ سے آخرت تباہ و برباد ہوجاتی ہے اس لیے عقلمند وہ انسان ہے جو جھوٹ سے دامن چھڑا کر سچائی کے دامن سے لپٹ جائے تاکہ ان وعیدوں سے بچ سکے۔
اب اگر سچائی کی بات کریں تو زمانہ جانتا ہے کہ سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے، اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی ہر جگہ حقیقیت میں وہی سراہا جاتا ہے جو صدق و صداقت کے لباس میں ملبوس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام میں خاص طور سے اس کی تاکید کی گئی ہے محسن انسانیت جان ایمان ﷺ نے جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے کی تلقین فرمائی۔
اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے ” يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله و كونوا مع الصادقين” یعنی ائے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرم ﷺ کی اخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوۂ تبوک میں حاضر ہوئے۔ (خازن)
سچائی کی بات آئی تو اس واقعے کو بیان کرنا مناسب اور بہتر سمجھتا ہوں جو سرکار غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعلیمی دورے سے متعلق ہے جس کا تذکرہ حضرت علامہ محمد بن یحییٰ تاذفی نے اپنی کتاب ” قلائد الجواھر ” میں کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ سرکار غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں اپنے والدہ کی بارگاہ میں آکر حصول تعلیم کی خاطر بغداد جانے کی اجازت طلب کی انہوں نے 80 دینار جو والد ماجد نے چھوڑے تھے لے کر آئیں میں نے 40 دینار اس میں سے لے لیے اور 40 بھائی کے لیے چھوڑ دیے آپ نے میرے 40 دینار میری گدڑی میں سل دیں اور بغداد جانے کی اجازت دے دیں اور آپ نے مجھے خواہ میں کسی حال میں ہوں راست گوئی کی تاکید کیں اور فرمائیں ائے فرزند میں لوجہ اللہ تمہیں رخصت کر رہی ہوں لہٰذا میں ایک قافلے کے ہمراہ ہو لیا جب ہم ہمدان سے گزر کر ایک ایسے مقام میں پہنچے جہاں کیچڑ بکثرت تھی تو ہم پر 60 سوار لوٹ پڑے قافلے لوٹ لیے مجھ سے کسی نے تعرض نہ کیا مگر تھوڑی دیر میں ایک شخص آیا اور کہا کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے میں نے کہا ہاں میرے پاس 40 دینار ہیں اس نے پوچھا کہاں ہیں میں نے کہا گدڑی میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں اس نے ہنسی مذاق سمجھ کر چھوڑ دیا پھر دو دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا وہ دونوں اپنے سردار سے بیان کیے اس نے اپنے پاس بلایا اور پوچھا تو میں نے وہی جواب دیا جو سابق میں دیا تھا اس نے گدڑی ادھیڑنے کا حکم دیا اور واقعی اس میں 40 دینار نکلے اس نے پوچھا تمہیں یہ اقرار کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا میں نے کہا میری والدہ نے ہمیشہ راست گوئی کی تاکید کی ہے میں ان سے عہد شکنی نہیں کر سکتا سردار رونے لگا اور کہنے لگا تم اپنی والدہ سے عہد شکنی نہیں کر سکتے اور میری تمام عمر رب سے عد شکنی کرتے کرتے گزر گئی اس نے میرے ہاتھ پر توبہ کر لی تو یہ دیکھ جملہ رہزنوں نے بھی توبہ کر لی ( قلائد الجواھر ص ۳۹)
محترم قارئین حضرات دیکھا آپ نے سچائی کے راستے کس قدر خوبصورت ہیں کہ اغیار بھی متاثر ہوجائیں اس سے نہ صرف اپنی بلکہ بہتوں کی زندگی سنور جاتی ہے لہٰذا تا دمِ زیست سچ بولیں اور جھوٹ سے اجتناب کریں۔
بارگاہِ رب لم یزل عز وجل میں دعا گو ہوں کہ مولیٰ کریم ہمیں ہمیشہ حق و صداقت کے راستے پر قائم و دائم رکھ اور مسلک و ملت کا کام تا دمِ زیست کرنے کی توفیق رفیق عطا فرما نیز خاتمہ بالخیر نصیب فرما۔ آمین ثــــــــــــم آمین یا ربّ العالمین و بجاہ النبی الامین ﷺ
۔۔۔۔۔ راقم الحروف ۔۔۔۔۔
محمد ارشد رضا امجدی فیضی
ممبر آف علماء کونسل نیپال ضلع نول پراسی نیپال