یہ حقیقت ہے کہ علما و مذہبی طبقے اور کالج و یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے درمیان فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔۔۔
اس میں بہت بڑا قصور ہمارے مذہبی حضرات کا بھی ہے۔۔۔ یہ اپنے مدار میں چلتے رہتے ہیں اور کبھی اس طبقے کو لائق توجہ نہیں سمجھتے۔۔۔
ہمارے لوگ مسجد میں امامت، مدرسے میں تدریس، محافل و جلوس کا اہتمام۔۔۔ یہیں تک محدود ہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ملا کی دوڑ مسجد تک۔۔۔ بہت سے افراد پر یہ مثال درست معلوم ہوتی ہے۔۔۔ گوکہ اس گئے گزرے دور میں ان حضرات کی کاوشیں لائق تحسین ہیں لیکن ہمیں ایسے صف شکن افراد کی ضرورت ہے جو روایتی کاموں سے اوپر اٹھ کر وقت کی ضرورت کو پورا کرسکیں۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو وسیع کریں۔۔۔ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے مزاج و طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے ان میں دینی، تبلیغی اور دعوتی کام کریں۔۔۔ ان کے سوالات، اشکالات اور مسائل کو سمجھ کر ان کا حل تلاش کریں اور انہیں نرمی کے ساتھ مطمئن کریں۔
ہماری اس طبقہ سے غفلت کا اندازہ لگانا ہو تو ذرا پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد علیہ الرحمہ کے بیان کردہ اس واقعے سے لگائیے۔۔۔ آپ سفر ہندوستان کی یادوں کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"انہیں (ملنے) آنے والوں میں پروفیسر وسیم بریلوی بھی تھے جنہوں نے بریلی کالج آنے کی دعوت دی۔۔۔ یہ ہندوستان کا قدیم کالج ہے۔۔۔ فقیر حاضر ہوا۔۔۔ شعبہ اردو کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ ایم اے کے طلبہ کلاس میں موجود تھے۔۔۔ پروفیسر بریلوی نے خطاب کے لیے فرمایا۔۔۔ فقیر نے خطاب کیا۔۔۔ پھر اعلی حضرت کی چند ایسی خوبیوں کا ذکر کیا جو عام طور پر لوگوں کو نہیں معلوم۔۔۔ طلبہ سے پوچھا یہ کون سی شخصیت ہیں؟۔۔۔ جس میں یہ خوبیاں ہیں۔۔۔ تمام طلبہ فقیر کے منہ کو تکتے رہے۔۔۔ بریلی میں رہتے ہوئے نوجوان طلبہ کو اعلی حضرت کے مقام کی کچھ خبر نہیں۔۔۔ تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوانوں کا قصور نہیں قصور ہمارا ہے۔۔۔ کہ ہم نے جوانوں تک تاریخی حقائق نہیں پہنچائے۔۔۔ اور آپس کی چپقلشوں میں مصروف رہے۔۔۔ مولی تعالی ہم سب کو حق گوئی اور اخلاص عمل کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔۔۔ اٰمین
(یادوں کے دریچے، صفحہ 348، ادارہ مسعودیہ کراچی)
یہ ہے ہماری غفلت کی انتہا!۔۔۔
یاد رکھیں اگر ہم نے اپنی روش کو تبدیل نہیں کیا اور اس طبقہ کو اپنا ہم نوا نہیں بنایا تو معاشرے میں مذہبی لحاظ سے کوئی بڑی مثبت تبدیلی محض خواب ثابت ہوگی اور ہم چائے کی پیالی میں طوفان تو لے آئیں گے دینی انقلاب نہیں لا سکیں گے۔۔۔۔
ازقلم: محمد سلیم قادری رضوی
3 نومبر 2024ء