امت مسلمہ کے حالات

نہ کچھ کرب نہ کرے دیب

آج ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں حکومتیں ہماری شریعت میں مداخلت کررہی ہیں مسلمان مارا جارہا ہے ماب لینچینگ کی جارہی ہے مسلم بچیوں کو شازش کے تحت منصوبہ ساز طریقہ پر ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے ہمارے مدرسے مسجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے ہماری وقف کردہ زمینوں پر بری نظر ڈالی جارہی ہے اور ہم اعراس و مجالس کی محفلوں میں اپنا اپنا کھوٹا گاڑنے میں لگے ہوے ہیں اور اگر کوئی ان تمام مسائل کے حل کے لیے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو ساتھ میں لیکر امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کراکر باطل طاقتوں کو جواب دینے کا کام کررہا ہے تو اسکی ٹانگ کھینچنے کا کام کیا جا رہا ہے یہ وہی لوگ کررہے ہیں جو آج ملک کے حالات کو دیکھتے ہوۓ حجرے میں چین کی نیند اور مرغ مسلّم کاٹ رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو عوام کو متحد ہونے نہیں دیتے یہ وہی لوگ ہیں جو لوگوں کے ذہنوں کو منتشر کررہے ہیں ایک اشرفی ایک رضوی کا اور ایک برکاتی ایک چشتی کا اور ایک چشتی ایک نقشبندی کا ٹانگ کھینچنے اور کھیچوانے کا کام کررہے ہیں آج ٹانگ کھینچنا ہمارا پسندیدہ کام بن گیا ہے ، ہماری سیاحت ہو یا سیاست، کاروبار ہو یا نوکری ہر جگہ ہم نے بس اپنوں کی ٹانگ کھینچنی ہے ۔ ہم اپنوں کو گرانے کےلیے تو ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے مگر اگر کسی کام کےلیے ذرا سی محنت کرنی پڑ جائے تو غش پڑ جاتے ناموس رسالت پر حملے ہو رہے ہیں اور اولاد رسول کہلوا کر اپنی عزت و تکریم کروانے والے کہاں ہیں کہاں ہیں قیادت کے دم بھرنے والے سواۓ چند کے ۔ ہمارے دفاتر ہوں یا ہمارے گھر ہر جگہ بس ہم اپنوں کی ٹانگیں ہی کھینچ رہے ہیں ۔ نہ خود کچھ کرنا ہے اور جو بیچارہ ہمارے بیچ کچھ کرنا چاہتا ہم اسکو بھی آگے بڑھنے نہیں دیتے اسکی بھی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں ہم دوسروں کی ٹانگ کھنچنے پر اتنا اعتقاد رکھتے ہیں ۔۔ شاید اس کی بجائے اگر ہم کسی کام پر توجہ دے لیں تو ہمارا کچھ بن جائے مگر ہم نے تو نہ خود آگے جانا اور نہ کسی اور کو جانے دینا ہمیں بھولی بھالی عوام کو ایک دوسرے کا مخالف بنا کر اپنی روٹی سیکنی ہے۔۔
ہمارے معاشرے کو شاید ہی اتنا نقصان کسی اور چیز کی وجہ سے پہنچا ہو جتنا اس ٹانگ کھینچنے کے رویے (leg-pulling )سے ہوا ہے ۔ ایک بندہ دن رات ایک کر کے محنت کرتا ہے گھر گھر در در جا کر اتحاد کی بات کرتا ہے تاکہ زندگی میں کسی قابل بن جائیں ۔ اب دوسرے ہم جیسے لوگ جو اس کے اردگرد ہونگے جن کا یوں تو فرض بنتا ہے کہ اسکا حوصلہ بڑھائیں تاکہ وہ مزید اچھے سے اپنا کام کرے مگر ہم کیا کریں گے، الٹا حوصلہ بڑھانے کے ہم حوصلہ پست کرنے لگ جائیں گے ۔ اس کی ذرا سی غلطی کو بڑھا چڑھا کر بتلائیں گے۔ دن رات اسے احساس دلائیں گے کہ وہ کتنا غلط کر رہا ہے ۔ پھر اگر کہیں کوئی کسر رہ گئی تو وہ دوسروں کو اسکے خلاف کرکے پوری کر دیں گے ۔ وہ کیا کہتے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں تم کو بھی لے ڈوبے گے والا حساب ہے ہمارا ۔ ہمارے اسی رویے کی وجہ سے کوئی کام کرنے والا بندہ یہاں رکتا ہی نہیں، جسے موقع ملتا ہے باہر جانے کا وہ فوراً چلا جاتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے وہاں ایسا ٹانگیں کھینچنے اور حوصلے پست کرنے والا کوئی نہ ہوگا ۔
ہم عجیب لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو اپنے دکھ درد اور خوشی میں شریک کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہم ایسے لوگ ہیں جو خوشی تو خوشی غم میں بھی کسی کو اذیت دینے سے باز نہیں آتے ۔ آنکھوں دیکھی بات ہے ادھر فوتگی کا موقع ہے، کسی کا جوان بیٹا مر گیا ہے اور اسے سہارا دینے کی بجائے ہم کہیں گے، بھئی تمہارا اب کیا بنے گا۔ تم تو برباد ہو گئے ہو بہتر یہی ہے تم بھی مر جاؤ ۔ شادی کا موقع ہو تو ادھر غلطی سے جو دولہا دلہن مسکرا دے۔ بس ہم نے تو پھر شروع ہو جانا ہے، بھئی مسکرا لو جتنا مسکرانا ہے پھر تو ساری زندگی پچھتانا ہی ہے ۔ بندہ کوئی اچھی دعا دے دے یا کوئی اچھی بات ہی کر دے مگر ہم نے تو کوئی ایسی بات ہی کرنی ہے جو دوسرے کو چار دن تک اندر سے جلاتی رہے ۔
کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے؟ اس طرح تو وہ ہم سے آگے نکل جائے گا۔ بس جی سب کچھ بھول بھال کر ہم اسکے راستے کی روڑے بن جائیں گے ۔ پھر اگر کوئی نیا کام کر رہا ہے تو مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی اور شخص کوئی کام کیسے کرسکتا ہے ۔ ہمارے اسی رویے کی وجہ سے ہم اتنے پیچھے ہیں۔ اب نہ ہم خود آگے بڑھ رہے ہیں اور کسی اور کو بڑھنے دے رہے ۔ ہم بس ہر جگہ ٹانگ کھینچنے کے فارمولے پر کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ہر شعبہ ہر طبقہ تباہی کی دہانے پر ہے ۔ نہ ہماری سیاست اس سے پاک ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ چند کالی بھیڑوں نے سب کا جینا دوبھر کر رہا ہے اب ایسے میں کوئی کچھ کرنے کا سوچے تو یہ کالی بھیڑیں فورا اس کی ٹانگیں کاٹنا شروع کر دیتی ہیں ۔ ذرا سی بھی برائی کہیں دکھے،ہم دن رات اس کا پرچار کریں گے ۔ دوسری جانب کوئی اچھا کام کر کر کے آدھا ہو گیا ہے مگر ہماری اس کی طرف نظر نہیں جاتی ۔
یہاں اگر تو آپ نے کھانا پینا اور موج کرنی ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں مگر اگر آپ نے کام کرنا ہے اور نام کرنا ہے تو پھر بھول جائیں ارد گرد کون لوگ ہیں اور کیا کر رہے ہیں ۔ آپ کا کام ہے بس کام کرنا سو آپ چپ کرکے سر پھنک کر لگے رہیں۔ مت دیکھیں کہ راستے میں کون ہے، کیسا ہے بس کام پر توجہ دیں تبھی آپ کسی مقام پر پہنچ سکتے ہیں حق گو اور حق پسند ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ ارد گرد کی الجھنوں میں الجھ گئے تو پھر ساری عمر انہی میں الجھے رہیں گے اور ملنا کچھ بھی نہیں ۔
شاعر لکھتا ہے ۔۔

چمن میں ہر طرف بِکھری ہُوئی ہے داستاں میری
اُڑالی قُمریوں نے، طُوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مِل کر لُوٹ لی طرزِ فغاں میری
ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری
الٰہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
حیاتِ جاوداں میری، نہ مرگِ ناگہاں میری!
مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گُلستاں کا
وہ گُل ہوں مَیں، خزاں ہر گُل کی ہے گویا خزاں میری

اپنی بات اس ان اشعار پر ختم کروں کہ۔۔

نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں !
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

فقط والسلام

ازقلم: محمد مکی القادری گورکھپوری
06/10/2024

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے