ازقلم: پروفیسر ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)
جب کوئی قوم قانون قدرت کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اجتماعی غفلت کا شکار ہوجاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی خدا کے متعین کردہ حدود کو پامال کرنے کی کوشش کی اور اجتماعی طور پر فطرت کے خلاف چلنے کی حماقت کی ہے گردشِ زمانہ نے اسے پیوند خاک کیا ہے۔قانون فطرت ہے کہ انفرادی غفلت کی سزا آخرت میں ملتی ہے لیکن اجتماعی غفلت کی سزا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے۔ آج کا مسلمان ہر سطح پر بڑے بڑے فتنوں اور صدموں سے دوچار ہے جس کی ایک اہم وجہ مسلمانوں کی بداعمالیاں اور بد کرداریاں ہیں۔ قرآن مجید میں بہت ساری اقوام کا ذکر موجود ہے جب ان لوگوں نے اجتماعی طور پر اللہ تعالی اور اس کے انبیاء و مرسلین کی نافرمانی کی تو اللہ تعالی نے ان پر سخت عذابات نازل کیے۔ موجودہ دوور میں امت مسلمہ بھی اجتماعی طور پر خواب غفلت کا شکار ہوچکی ہے جیسا کہ امت مسلمہ کے موجودہ حالات سے ظاہر ہورہا ہے ۔ ایک طرف صیہونی و فرقہ پرست اور اسلام دشمن طاقتیں حکومتی سطح پر مسلمانوں کو تباہ کرنے کے در پر ہے تو دوسری جانب امت مسلمہ خواب غفلت کی گہری نیند سوئی ہوئی ہے۔ اکٹوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل مسلسل ہر روز معصوم و نہتے فلسطینیوں پر جارحانہ حملے کررہا ہے جس میں کئی خاندان بے گھر ہورہے ہیں، کئی خواتین بیوہ بن رہی ہیں، کئی بچے یتیم و یسیر ہورہے ہیں، کئی والدین اپنی اولاد سے محروم ہورہے ہیں، ہزاروں فلسطینی شہید ہورہے ہیں اس کے باوجود امت مسلمہ مدہوش نیند سوئی ہوئی ہے اس میں ذرا بھی جنبش نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں امت مسلمہ اپنی مذہبی، اخلاقی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے سوشیل میڈیا کے ذریعہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر اکتفا کیے ہوئے ہے جبکہ موجودہ سنگین حالات کا تقاضہ تھا کہ مسلمان ان سے درس عبرت حاصل کرتے ، رجوع الی اللہ ہوتے، رب کے حضور توبہ و استغفار کرتے اور مومنانہ کردار اپنانے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے۔ اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو امریکہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مکمل تائید و نصرت حاصل ہے جو اسرائیل کو مسلسل اسلحہ ، غذائی اشیاء و ادویات فراہم کررہے ہیں طرفتہ تماشہ یہ کہ فلسطینیوں کی کسی بھی طرح کی امداد میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے یہ اعلان کیا ہو کہ اسرائیل کے حمایتی ممالک کے خلاف بھی زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر ہم صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی غفلت نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ ایک طرف غزہ میں روح فرسا دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں ، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے تو دوسری جانب حجاز مقدس میں حکومت کی نگرانی میں شراب خانے کھول رہے ہیں، نیم برہنہ خواتین کے رقص و سرور اور موسیقی کے محافل سجائی جارہی ہیں جس پر تقریباً پوری امت مسلمہ بشمول علماء مکمل طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ غذائی اشیاء کی قلت کے باعث فلسطینی بچے لقمہ اجل بن رہے ہیں تو دوسری طرف ہم ہماری نجی تقاریب میں دل کھول کر اسراف کررہے ہیں،اخلاقی خرابیاں مسلم معاشرے میں سرایت کرگئی ہیں۔ عذاب کے تمام اسباب اور مقتضیات موجود رہنے کے باوجود مسلمان اجتماعی تباہی سے محفوظ و مامون ہیں تو یہ سب نعلین پاک مصطفیؐ کا صدقہ ہے ۔رحمۃ اللعالمین کا پربرکت وجود عذاب سے امن و سلامتی کا باعث ہے لہٰذا ہمیں اس عظیم نعمت کا اعزاز و اکرام کرتے ہوئے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے۔ جہان فانی کی رنگیں شوخیوں و بدمستیوں کے لیے خلاق رب العالمین کے احکامات کی نافرمانی کرنا، احکم الحاکمین کی عظیم قدرت کے مقابل دنیاوی وسائل اور ذرائع پر کامل بھروسہ و اعتماد کرنا، دلفریب ترقی حاصل کرنے کے لیے اتباع رسول رحمتؐ اور اعلی اسلامی اقدار سے دور بھاگنا، قرآنی ارشادات کو فراموش کرکے غفلت و جہالت کی ظلمتوں میں بھٹکنا، حصول روزگار کی نیت سے تعلیم یافتہ بننا، خدمت خلق کے تحت چلنے والے ادارے بشمول اسکولس اور ہاسپٹلس کو تجارت گاہ بنانا،نام نہاد تہذیب یافتہ دکھنے کے لیے بد کرداری اختیار کرنا، مخلوق کو راضی کرنے کے لیے سماجی خرافات، بدعات اور رسومات کو دلیری سے اختیار کرنا، سزا سے بے پرواہ ہوکر گناہوں کا ارتکاب کرنا، محبت کے جھوٹے فریب میں آکر جسمانی لذت کی تسکین اور ذاتی فائدہ کے لیے مرتد ہوجانا، سوشیل میڈیا پر گھنٹوں مخرب الاخلاق مناظر دیکھتے ہوئے خوابیدہ سفلی جذبات کو ابھارکر ان کا شکار ہونا، حرص و لالچ میں ڈوب کرعوام الناس کی زندگی کو جہنم زار بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کرنا، ہر عالمانہ لبادہ اوڑھنے والے کو مستند و معتبر عالم دین اور صوفیانہ لباس زیب تن کرنے والے کو پیر کامل سمجھنا، بزرگان دین کی سخت ریاضات و مجاہدات کو پس پشت ڈال کر محض نذرانے بٹورنے کے لیے خانقاہی نظام کو تہس نہس اور تباہ و برباد کرنا، اپنے سکون و اطمینان کے لیے لوگوں کو ذہنی و قلبی تکلیف پہنچانا، پیسہ کمانے کے لیے جھوٹے مقدمات دائر کرنا اور کروانا، سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال عوام الناس کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے اور اپنے رفقا کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کے لیے کرنا، اپنے اختیار اور قوت و اقتدارکا غلط استعمال کرنا، جدیدیت و مادیت کا شکار ہوکر بد تہذیبی اور نفسا نفسی کو طرز حیات بنانا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ بالخصوص نوجوان نسل اپنے مقصد حیات کو بھول چکی ہے جو درحقیقت مغرور و نافرمان انسانوں کی علامت ہے اور دین اسلام کی حیات آفریں تعلیمات سے دوری اختیار کرکے اندھیری وادیوں کے تہہ خانہ میں گم ہوچکی ہے۔ واضح باد کہ نیکی کے کام کرنا برائیوں کو ترک کرنے کے مقابل بہت آسان ہے۔ ایک بے نمازی ممکن ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کا رخ کرلے لیکن کسی انسان کے لیے رشوت یا دیگر حرام ذرائع سے آنے والے ایک لاکھ روپیہ کو چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ اسی لیے ہمیںکلمہ طیبہ میں پہلے معبودان باطل کی نفی سکھائی گئی اور انسان کا نفس بھی ایک بت ہے جس سے چھٹکارا پانا انتہائی ضروری ہے تاکہ کلمہ طیبہ کا راست اثر ہمارے قلب و ذہن پر ہو۔ مسلمانوں کو غرور و تکبراور منکرات و فواحش سے اجتناب کرنے کے بعد ہی نماز کے برکات حاصل ہوتے ہیں، نفسانی خواہشات کو قابو رکھنے سے روزہ کے منافع حاصل ہوتے ہیں، دنیا و مافیھا کی محبت دل سے نکالنے کے بعد ہی ادائیگی زکوٰۃ کے فوائد ملتے ہیں، کینہ و بغض اور نفرت و عداوت سے دلوں کو پاک کرنے کے بعد ہی حج کے ثمرات نصیب ہوتے ہیں۔ جب انسان برائیوں سے اجتناب کرتے ہوئے نیکیوں کے کام انجام دیتا ہے تو اس کا شمار متقین میں ہوتا ہے جس کے لیے رب کائنات قرآن مجید کی ہدایت کے دروازہ کھول دیتا ہے اور اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت عبادات میں کیف و سرور کی کیفیت سے محروم ہے جس کی اصل وجہ گناہوں کا ترک نہ کرنا ہے۔ ہماری غفلتوں کے ہی منفی اثرات ہیں کہ آج مسلمان رب کائنات کو خالق و مالک ماننے کے باوجود ویسے عبادت نہیں کررہا ہے جیسا عبادت کرنے کا حق ہے، رب العالمین کو پالنہار مانتے ہوئے اپنی روزی روٹی کے لیے حرام ذرائع اختیار کررہا ہے، دنیا کی ہر چیز کو فانی جانتے ہوئے بھی اسی کو حاصل کرنے کے لیے حلال و حرام کے امتیازات کو مٹا رہا ہے، موٹ کو اٹل جانتے ہوئے بھی موت کے بعد والی زندگی کے لیے کوئی تیاری نہیں کررہا ہے، دنیا کی تمام عیش و عشرت کی چیزیں چھوڑ کر دو گز زمین کے اندھیرے گڑے میں لیٹنا ہے ، اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس تاریک قبر کو روشن و منور کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کررہا ہے، جنت ابرابر (نیک اور خوش بختہستیوں ) کا ٹھکانہ ہے جانتے ہوئے اپنے آپ کو زمرہ صالحین میں شامل کرنے کی کوئی سعی نہیں کررہا ہے، جہنم اشرار (برے اور بدبختلوگوں ) کا ٹھکانہ ہے اس اٹل حقیقت کا علم رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو زمرہ فاسقین سے بچانے کی کوئی فکر نہیں کررہا ہے۔ ہم سب بشر ہیں اگر ہم سے کوئی بشری کوتاہی سرزد ہوجائے تو ہم پر لازم ہے کہ اس پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے رب کائنات کے حضور توبہ و استغفار کریں یقینا اللہ تعالی ہماری غلطیوں کو معاف فرمائے گا اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالی اپنے نافرمان اور گناہگار بندوں سے فرماتا ہے کہ میری رحمت واسعہ سے ناامید و مایوس نہ ہوبس شرط یہ ہے کہ گناہ والی زندگی ترک کرکے صراط مستقیم پر گامزن ہوجائو میں تمہیں راحت، نشاط اور فرحت کی نعمتوں سے مالامال کردوں گا جس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت تمہیں پریشان، ذلیل و سوا نہیں کرپائے گی۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔