(1)شمالی ہند میں بعض ریاستوں کے سکان وباشندگان دیگر ریاستوں کے اہالیان وباشندگان سے خود کو عظیم تر تصور کرتے ہیں۔یہ دعویٰ بے معنی اور حقائق سے بہت دور ہے۔اچھے لوگوں سے اچھے اخلاق وبرتاو کا ظہور ہوتا ہے۔وہ خود کو عظیم تر اور دوسروں کو کم تر نہیں سمجھتے،بلکہ انسان ہونے کے ناطے سب کو اپنا ہمسر مانتے ہیں۔
(2)یہ بات وسیع تجربات سے ثابت ہے کہ جنوبی ہند(کیرلا،کرناٹک،تمل ناڈو،تلنگانہ وآندھرا پردیش) کے معاشرتی احوال اور انسانی اخلاق وکردار بہ نسبت شمالی ہند کے بلند تر ہے۔
(3)ہم نے کیرلا میں کبھی نہیں سنا کہ فلاں جگہ چوری یا لوٹ مار ہوئی ہو۔جیب کترے بھی ان ریاستوں سے کترا کر گذر جاتے ہیں۔
(4)میں کرناٹک میں دیکھتا تھا کہ نماز کا وقت ہو جائے تو ٹھیلہ گاڑی پر پھل اور مٹھائیاں بیچنے والے اپنی گاڑی پر چادر ڈال دیتے اور نماز کے لئے مسجد چلے جاتے اور ان کی گاڑی اور پھل ومٹھائی کو چھوٹا یا بڑا کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔
شمالی ہند میں شاید ایسا نہ ہو سکے،بلکہ یہ ممکن ہے کہ جب وہ نماز پڑھ کر واپس آئے تو نہ ٹھیلہ گاڑی ملے،نہ پھل ومٹھائی ملے۔
(5)ہم نے عارضی طور پر دہلی اور گوا میں امامت کی ہے۔دہلی میں مسجد کے ذمہ داران کہتے کہ آپ جب اپنے حجرے سے باہر جائیں تو تالا لگا کر جائیں اور گوا میں لوگ کہتے کہ آپ کو کہیں جانا ہے تو جائیں،روم میں تالا لگانے کی ضرورت نہیں۔
(6)ایک بار میں کاسرگوڈ (کیرلا)سے مینگلور(کرناٹک)ٹرین کے جنرل کمپارٹمنٹ میں جا رہا تھا۔سامنے سیٹ پر ایک پانچ چھ سالہ بچہ سو رہا تھا۔
پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک جوان کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا۔اس نے بچے کے والدین سے کہا کہ بچے کو اٹھائیں۔مجھے بیٹھنا ہے۔
اس کے والدین نے بچے کو اٹھا لیا۔وہ آدمی بیٹھ گیا۔اس کی اس حرکت کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ بندہ جنوبی ہند کا نہیں ہو سکتا۔جنوبی ہند کے لوگ نرم دل ہوتے ہیں۔اگر بچے کو نیند آ رہی ہو تو بڑا آدمی سیٹ سے اٹھ جائے گا اور بچے کے سونے کے واسطے جگہ خالی کر دے گا۔
جب جینٹل مین سیٹ پر آرام سے بیٹھ گیا تو میں نے اس سے پوچھا: سر! آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟
سر نے سرسرا کر اور مسکرا کر جواب دیا کہ میں فلاں جگہ کا رہنے والا ہوں۔اس نے شمالی ہند کے کسی شہر کا نام بتایا۔
میں تو پہلے ہی سمجھ چکا تھا کہ بندہ جنوبی ہند کا نہیں ہے اس کے جواب نے میرے خیال کی تصدیق کر دی۔
نصیحت:انسان بنیں۔دو پایہ حیوان نہ بنیں۔
ازقلم: طارق انور مصباحی