تحریر: خلیل احمد فیضانی
استاذ: دار العلوم فیضان اشرف باسنی
وطن عزیز کی فضا مسموم ہوچکی ہے۔ باد مخالف کی تندی سے کوئی آشیانہ محفوظ نہیں ہے۔عیار اور شاطر افراد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں مسلم قوم کا مسلسل استحصال اور استیصال کررہے ہیں۔
علمی،سیاسی اور شعوری لیول پر ہماری سطحیت عیاں ہے۔
حریف طبقہ ایک جٹ ہوکر اپنے مشن میں مصروف ہے جب کہ ہمارا شیرازہ حالات کی اس قدر نازکی کے باوصف منتشر ہے ۔
یہ زمینی سچائی ہے کہ ہم لوگ جذباتی واقع ہوۓ ہیں ۔
اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جذبات کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے اور یہ بہت بڑی پروبلم ہے کہ مسلم قوم جذبات کی رو میں بنسبت غیر مسلم اقوام کے بہت جلدی بہہ جاتی ہے۔
مذہب کے نام پر ان کے دماغ کو ہائی جیک کرنا اربابِ سیاست کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
جذباتی نعرے اور جذباتیت سے بھری وقتی قیادتیں وقتی طور پر تو بھیڑ جمع کرسکتی ہیں مگر بڑے مشن کو سر کرنے کے لیے محض جذبات قطعی طور پر کارآمد نہیں ہوتے ہیں بلکہ جذبات کے ساتھ سنجیدگی ،صبراور استقلال واستقامت بھی بڑے ہدف کی تکمیل کے لیے خشت اول کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مشہور سیاست داں شیخ رشید،روالپنڈی کے استاذ جناب سورش کاشمیری صاحب مرحوم لکھتے ہیں:-
مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ ہرسیاسی تنظیم اور ہرسیاسی تحریک میں جذبات کی مخلوق رہے ،ان کی صحیح سیاسی تربیت بہت کم ہوئی تھی وہ بعجلت اکٹھا ہوتے اور بسرعت بکھر جاتے ،انہوں نے مدت سے سوچنا ترک کردیا تھا ،وہ تاریخ سے زیادہ سیاست کے اور سیاست سے زیادہ صحافت کے کھلاڑی رہے ،انہیں نصب العین سے کم اور نعروں سے زیادہ دل چسپی رہی ،انہوں نے اصولوں سے زیادہ شخصیتوں پر انحصار کیا۔
ہمارا کٹر حریف طبقہ اور بظاہر ہماری خیر چاہنے والا سیکولر طبقہ بھی اچھی طرح جان چکا ہے کہ مسلمان ایک جذباتی قوم ہے اس کے جذبات کا مس یوز کرکے ہم اپنی سیاست کو بڑی آسانی سے چمکا سکتے ہیں اور نیا رنگ دے سکتے ہیں ۔
بظاہر وہ خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں مگر پس پردہ ان کے ارادے بھیانک اور خطرناک ہوتے ہیں۔
علامہ یس اختر مصباحی-رحمہ اللہ- رقم طراز ہیں:-
ایک مسلم لیڈر نے کئی بار مجھ سے بیان کیا کہ میں نے "بہو گنا صاحب” -سابق مرکزی وزیر و سابق وزیر اعلیٰ اترپردیش – سے ایک دفعہ پوچھا پوچھا مسلم سیاست سے آپ کو اتنی گہری واقفیت کیسے ہے اور مسلمانوں کی نفسیات سمجھنے میں آپ کواتنی مہارت کیسے حاصل ہوگئی کہ اتر پردیش کے مسلمان آپ سے اتنے بڑے پیمانے پر جڑھے ہوئے ہیں اور جذباتی انداز سے آپ کو ووٹ اور سپورٹ دینے میں لگے ہیں؟
بہو گنا نے کہا- بھائی سنو !
تقسیم ہند سے پہلے کی بات ہے، جب کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان الیکشن ہوا تھا اور اس الیکشن میں مسلمانانِ ہند کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ ہندوستان ہی میں رہنا چاہتے ہیں یا اس کا کچھ حصہ لے کر اپنا ایک الگ ملک بنانا چاہتے ہیں اسی الیکشن کے سلسلے میں ‘گھنٹہ گھر الہ آباد "کے سامنے کانگریس کی طرف سے ایک بڑا جلسہ ہوا جس کے مقرر خصوصی "پنڈت جواہر لال نہرو "تھے- پنڈت نہرو نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کے تجارتی وہ اقتصادی و معاشی امور و مسائل پر اپنی تقریر میں تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ ہندوستان میں نہ صرف یہ کہ ان کا مستقبل محفوظ رہے گا بلکہ ان کے مفادات بھی محفوظ رہیں گے اور ان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دیں اور کانگریسی امیدواروں کو کامیاب بنائیں –
پنڈت نہرو کی اس تقریر سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ متاثر ہو گیا اور پانسہ پلٹنے کے آثار نظر آنے لگے- مسلم لیگی کیمپ میں تشویش و اضطراب کی کیفیت پیدا ہونے لگی- جس کے بعد جس کے بعد سربرآوردہ لیگیوں کو بھی سمجھ میں آنے لگا کہ پنڈت نہرو کی ٹکر کا کوئی چوٹی کا لیڈر اگر” الہ آباد "نہیں ایا تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے اور لیگ کو شکست سے دو چار ہونا پڑ سکتا ہے -بالآخر سب نے مل جل کر طے کیا کہ گھنٹہ گھر الہ آباد کے اسی میدان میں مسلم لیگ کا جلسہ کیا جاے جہاں کانگریسی جلسہ ہوا تھا اور اس جلسے میں خصوصی طور سے نواب زادہ لیاقت علی خان کو مدعو کیا جائے- چنانچہ لیاقت علی خان اس جلسے میں شریک ہوئے اور انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ایک ہاتھ میں قرآن شریف اور دوسرے ہاتھ میں ایک روٹی لے کر دونوں ہاتھ کو اوپر بلند کرتے ہوئے نہایت جذباتی انداز میں حاضرین جلسہ سے سوال کیا آپ کو قران چاہیے یا روٹی چاہیے؟مجمع نے بے قابو ہوتے ہوئے بے ساختہ اور بیک زبان کہا کہ ہمیں قران چاہیے اس جواب کو سنتے ہی لیاقت علی خان نے حاضرین و سامعین سے کہا کہ جنہیں قرآن چاہیے وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں اور جنہیں روٹی چاہیے وہ کانگرس کی طرف جائیں -نواب زادہ لیاقت علی خان کی تقریر نے حالات کا رخ موڑ دیا کانگریس کی طرف جانے والے مسلمان مسلم لیگ کی طرف واپس پلٹ آئے اور انہوں نے الیکشن میں لیگی امیدوار کو کامیاب بنا دیا یہ چشم دید واقعہ سنانے کے بعد "بہوگنا ” نے کہا کہ یہ سب کچھ میرے سامنے ہوا- میں اس وقت الہ آباد یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ اور یونین کا لیڈر تھا- دونوں جلسوں میں بذات خود شریک تھا اور ان جلسوں کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات نفسیات کا مطالعہ کر کہ میں نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا کہ مسلمان ایک جذباتی قوم ہے اور قرآن دکھا کر اسے جس طرف چاہو ادھر موڑ دو اور اس سے جو کام چاہو وہ کروا لو روٹی کی اسے کوئی فکر نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کے نام پر وہ اتنا دیوانہ ہو جاتا ہے کہ دنیاوی مفادات سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔ بس یہیں سے میری مسلم نو از سیاست کا آغاز سمجھیے۔
گویا بہوگنا کے کہنے کا مطلب ہے کہ مذہب کے تحفظ ، اسلام کے تحفظ ، اردو کے تحفظ اور مساجد و مدارس کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کا جتنا استحصال مجھ سے ممکن ہو سکا وہ میں نے کیا اور میرے جیسے دوسرے مسلم نواز لیڈ ر بھی آئندہ ایسا ہی کرتے رہیں گے۔ مسلمان اسی طرح کے جذباتی نعروں کے پیچھے دوڑتے اور بیوقوف بنتے رہیں گے۔ جس کا ایک نمونہ مسئلہ بابری مسجد ہے۔ جس کے پس پردہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور اس کے چرب زبان لیڈروں کی منافقت و استحصال پسندی کا چہرہ صاف عیاں ہے۔ (نقوش فکر:60،61،62)
مسلمان اگر سمجھ دار اور جذبات کی دنیا سے نکل کر سوچنے والا ہوتا تو مذکورہ لیڈر کے غیر دانش مندانہ سوال کا برملا یہ جواب دیتا کہ ہمیں دین بھی چاہیے اور دنیا بھی چاہیے-
قرآن بھی چاہیے اور روٹی بھی چاہیے ۔علم بھی چاہیے اور تجارت بھی چاہیے ۔
اگر ہم جذبات کی سطحی دنیا سے نکل کر اپنے اندر جینے کا شعور بیدار کرتے اور اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی اور بحالی کے لیے سنجیدہ کاوشیں کرتے تو آج حالات کا زاویہ یہ نہیں ہوتا !