ازقلم: سعیدؔ رحمانی
چیف ایڈیٹر سہ ماہی ادبی محاذ کٹک
7978439220
اصل نام اے شفیق اور شفیقؔ رائے پوری شعری شناخت ہے۔ رائے پور (چھتیس گڑھ) میں ۵؍ جون ۱۹۵۴ء کوپیدا ہوئے۔ اسی مناسبت سے شفیقؔ رائے پوری کہلاتے ہیں۔ والدِ مرحوم کا اسمِ گرامی عبدالرسول ہے۔گریجویشن کرنے کے بعد ۶ ؍مہینے تک پرائیویٹ اردو اسکول میں مدرسی کے فرائض انجام دیے اس کےبعد بجلی بورڈ میں ملازمت کر لی اور ایڈمنسٹریٹیو آفیسر کے عہدے سے جون ۲۰۱۶ء میں وظیفہ پرسبکدوش ہوئے۔
گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں جو شعراء منظرِ عام پر آئے انہوں نے شاعری میں متوازن راہ اختیار کی۔ ان کے یہاں نہ بلند بانگ دعوے تھے اور نہ ہی تجربے کی خاطر لسانی شکست و ریخت کا عمل۔ چنانچہ روایت کی پاسداری کے ساتھ ان کے یہاں فکر و خیال کی ندرت اور اس کی تازگی وطرفگی اور زبان کی سلاست و سادگی پائی جاتی ہے۔ شفیقؔ رائے پوری کا شمار ایسے ہی شاعروں میں کیا جاتا ہے جن کی غزلیں جمالیاتی کیف و کم کے ساتھ عصر حاضر کے مسائل سے آنکھیں ملا کر بات کرتی ہیں۔
شفیقؔ رائے پوری ۱۹۷۵ء سے اپنی شعری بصیرت کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ داغ ؔسلسلے کے استاد شاعر حضرتِ سلیم احمد زخمی بالودوی ( تلمیذ مولانا ناطقؔ گلائوٹھوی تلمیذ داغ دہلوی )سے شرف تلمذ حاصل ہے۔اردو اور فارسی مضامین کے ساتھ گریجویشن کیا ہے اس لئے ہر دو زبان میں انہیں خاصی استعداد حاصل ہے۔ غزل کے شاعر ہیں مگر تقدیسی شاعری اور نثر نگاری میں بھی دلچسپی ہے۔ ان کی غزلوں میں محسوسات و مشاہدات کی قوس قزحی روشنی جابجا بکھری نظر آتی ہے۔ ان کی غزلوں میں تازہ کاری بھی ہے اور توانائی بھی۔ اس بات کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ آج کا انسان جس کرب ناک دور میں سانس لے رہا ہے اس کے مجروح جذبات کا وہ بھرپور اظہار کرتے ہیں، چونکہ انہیں عصرِ حاضر کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کا ادراک ہے اس لئے ان کی شاعری کو متنوع موضوعات کا اظہاریہ کہا جاسکتا ہے۔غزلوں سے جہاں ان کے باطن کی سیر کی جاسکتی ہے وہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ذات سے بیرونِ ذات کی جانب وہ محوِ سفر ہیں، اسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ کھلی آنکھوں کے شاعر ہیں اور ارد گرد رونما ہونے والے سانحات و حادثات کو جزوِ شاعری بنا کر اپنے عصری شعور کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
حمد ونعت اور مناقب جیسی اصناف میں بھی انہوں نے اپنے عقیدت مندانہ جذبات کو خوب صورت شعری پیکر عطاکیا ہے۔ ان کی تقدیسی شاعری میں عشقِ رسول کی شمع روشن ہے اور جس کے سبب اس میں ایک والہانہ وارفتگی بھی پائی جاتی ہے جو قاری کے لیے طمانیت و سرشاری کا موجب ہے۔معیاری رسائل و جرائد میں اشاعتِ کلام کے سبب ادبی حلقوں سے روشناس ہیںطرحی غزلوں کے مقابلوں میں شرکت کر کے انعامات بھی حاصل کر چکے ہیں۔
ان کی غزلوں کا مجموعہ صراطِ کرب ۲۰۱۸ء میں چھتیس گڑھ اردو اکادمی نےشائع کیا ہے اور ان کا نعتیہ دیوان ’’قصیدہ نور کا‘‘ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے۲۰۲۱ء میں شائع ہو کر مقبولِ خاص و عام ہو چکا ہے۔
شفیقؔ رائے پوری کی غیرمطبوعہ تصانیف میں ’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعراء‘‘ کافی اہمیت کی حامل تصنیف ہے، موصوف کا یہ تحقیقی اور تاریخی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ ،طلعتِ افکار (مضامین کا مجموعہ) ، متاعِ نعت(نعتیہ مجموعہ) انوارِ مناقب (مناقب کا مجموعہ ) اورتنویرِغزل(شعری مجموعہ) کل پانچ کتابیں اشاعت کے انتظار میں ہیں۔
کلام شاعر
غزل (۱)
نام سو بار ترا میں نے لکھا پانی پر
سنگ دل موجوں نے رہنے نہ دیا پانی پر
خونِ نا حق سے اتر جائے گا وہ بھی قاتل
ناز کرتی ہے بہت تیغ ِ جفا پانی پر
ڈوب جانا تھا محبت کے سمندر میں جسے
اس نے بے خوف و خطر رقص کیا پانی پر
اب نہ ساحل کی تمنا ہے نہ گرداب کا ڈر
چل پڑی کشتیٔ تسلیم و رضا پانی پر
آج پھر سوکھے ہوئے کھیت رہیں گے پیاسے
رُخ بتاتا ہے کہ برسے گی گھٹا پانی پر
کھیل بچوں کا نہیں ہوتی محبت اے دل
نائو کاغذ کی کہاں لے کے چلا پانی پر
اتحاد آج عناصر میں ہے لیکن کب تک
خاک و آتش پہ بھروسا نہ ہوا پانی پر
عکس ان کا ہے نہ آنسو ہیں وہاں میرے شفیقؔ
ڈھونڈتی پھرتی ہے کیا موج بھلا پانی پر
غزل(۲)
ہمیشہ بیتِ وفا کا طواف میں نے کیا
خطا اُدھر سے ہوئی اعتراف میں نے کیا
مِرا ضمیر ہے منصف مجھے سزا دے گا
صداقتوں سے اگر انحراف میں نے کیا
دکھا کے لوگوں کو آئینہ کیا ملا مجھ کو
تمام شہر کو اپنے خلاف میں نے کیا
سزا نہ دے کے سبق دے دیا ستمگر کو
خوشی کی بات ہے اس کو معاف میں نے کیا
مِرا مزاج نہیں ہاں میں ہاں ملانے کا
غلط تھی بات تری ا ختلاف میں نے کیا
مِری خوشی کا وہ قاتل تھا باوجود اس کے
شفیقؔ اس کو بھی دل سے معاف میں نے کیا