نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان
رضا کے در کی تابِندہ کرامت ، حافظ ملت
ضیاے محفلِ صدرِ شریعت ، حافظ ملّت
تجلی مشرق و مغرب میں ہے جس کے ستاروں کی
ہیں ایسے آسمانِ علم و حکمت حافظ ملّت
فروغ سُنیت میں سب سے آگے کارواں اُن کا
یقینا ہیں رضاے اعلٰی حضرت حافظ ملت
بہارِ رضویت مہکی، جہاں مصباحیت بن کر
بریلی کی بصارت اور بصیرت حافظ ملّت
منور جسم وجاں اب بھی ہیں ان کے جلوۂ فن سے
ہمیں دیتے ہیں علمی شان و شوکت حافظ ملّت
وہ مالی جس کے دم سے ہو گیے اجڑے چمن تازہ
ہنر کے گلستانوں کی ہیں نُزہت حافظ ملّت
نہ کیوں ہو ناز ہم اہلسنن کو اپنے قائد پر
کہ دائم اہل حق کی ہیں ضرورت حافظ ملت
جبیں پر خاک جو ہم نے لگائ تھی ترے در کی
وہی مِٹّی ہے اب تاجِ کرامت حافظ ملّت
زمانے کے تقاضوں سے نہ ہوں گے ہم کبھی غافل
کہ تونے بخشی ہے چشمِ فراست حافظ ملت
وفاؤں کا قرینہ اشرفیّہ نے ہمیں بخشا
محبت کا حرم ہے یہ عمارت ، حافظ ملت
ثریّا کی طرح قدموں کی مٹی جگمگاتی ہے
زمیں کو آسماں ہے تیری نسبت حافظ ملّت
ترے ذرے زمانے بھر میں سورج بن کے روشن ہیں
ترے قطروں میں ہے دریا کی وسعت حافظ ملّت
ترے کردار کے اندر جمالِ مصطفائی ہے
ترا شیوہ محبّت ہی محبّت حافظ ملّت
ترے دست خِرَد نے قوم کی شیرازہ بندی کی
ہیں نازاں تجھ پہ سارے اہلسنت حافظ ملت
فروزاں ہو ترا مرقد مثالِ صبحِ تابندہ
برستی ہی رہے مولٰی کی رحمت حافظ ملّت
اُسی فیضان سے میرا نشیمن ہے بلندی پر
دوعالم میں فریدی کی ہیں عزّت حافظ ملّت