تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
حالیہ بہار الیکشن میں یادو برادری کے لوگوں نے لالو پرساد یادو کی پارٹی آرجے ڈی کے مسلم امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا,جس کے سبب دس مسلم امیدوار ہار گئے اور لالو پرساد یادو کا لال ہزار کوششوں کے باوجود بہار کی کرسی پر بیٹھ نہیں سکا۔یادو برادری کے تعصب کے سبب بہار میں یادو حکومت کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
چند دنوں قبل الہ آباد میونسپلٹی کی مجلس عاملہ کے لئے ملائم سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی نے اپنے دو امیدوار نامزد کئے۔ایک ہندو اور ایک مسلمان۔سماجوادی پاٹی کے کل 26:ممبران میونسپلٹی میں تھے۔ہندو امیدوار جیت گیا اور مسلم امیدوار ہار گیا۔اسے 26 میں سے کل سات ہی ممبران کے ووٹ ملے۔باقی ممبروں نے دیگر پارٹیوں کے ہندو امیدوار کو ووٹ دیا,تاکہ مسلم امیدوار جیت نہ سکے۔مسلم امیدواروں کاجو حال بہار میں ہوا تھا,وہی حادثہ یوپی میں پیش آیا۔
سیکولر کہلانے والی پارٹیاں مسلمانوں کو سیکولر بنانے کا نعرہ واپس لیں۔بھارت کے مسلمان ہمیشہ سیکولر رہے ہیں۔برادریانہ پارٹیاں اپنی برادریوں کو سیکولر بنائیں,ورنہ خود اس کی برادری ان کا نام ونشان مٹا دے گی۔
بھارت میں آرین قوم کے ساتھ شودر اقوام نے بھی یہ عزم کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو حکومت وسیاست سے بے دخل کر دیں۔نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ خود شودر اقوام حکومت سے بے دخل ہو رہی ہیں اور بی جے پی ہر جگہ قبضہ جماتی جا رہی ہے اور برہمنی سیاست سب کو چاروں شانے چت کرتی جا رہی ہے۔
برہمنوں کی نظر میں مسلمان ملیچھ ہیں تو غیر برہمنی اقوام شودر اور غلام ہیں۔دلتوں کو اچھوت اور ناپاک سمجھا جاتا ہے۔
بی جے پی کے طاقتور ہوتے ہی یہ بھی آواز اٹھنے لگی ہے کہ عہد ماضی میں جو قوم جو کام کرتی تھی,اب وہ اپنے آبائی پیشوں کو اپنا لیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ برہمن پوجا پاٹ کریں۔راجپوت حکومت سنبھالیں اور بنیا تجارت کریں یادو کسانی اور کھیتی کریں اور مویشی پالیں۔حجام بال کاٹیں۔الغرض سب اپنے پیشوں کو اپنا لیں اور ملک میں منوسمرتی کا قانون نافذ ہو جائے۔
جس زمانے میں ملائم سنگھ یادو اور لالو پرساد یادو نے یادو برادری کی پارٹی بنائی تھی,اس وقت کانگریس بڑی پارٹی تھی۔
کانگریس سافٹ ہندتو کا نظریہ رکھتی تھی,اس لئے ملائم سنگھ یادو اور لالو پرساد یادو نے سافٹ ہندتو سے بھی انکار کردیا اور ایک زمانے میں ملائم سنگھ کی مسلم دوستی دیکھ کر لوگ ملا ملائم سنگھ کہتے تھے۔
رفتہ رفتہ ملائم سنگھ میں تبدیلیاں آتی گئیں۔امر سنگھ کو سماجوادی پارٹی کا سکریٹری بنایا گیا تو اس نے پارٹی میں ہندو مسلم عصبیت کا زہر بھردیا۔سیاسی لیڈروں میں تعصب آیا تو دیگر لوگ بھی متاثر اور متعصب ہو گئے۔
ملائم سنگھ کے بیٹے اکھلیش یادو نے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس سے ہاتھ ملایا۔سماج وادی پارٹی کو شکست بھی ہوئی اور پارٹی میں سافٹ ہندتو بھی داخل ہو گیا۔
لالو پرساد یادو نے بہار الیکشن میں کانگریس سے ہاتھ ملایا تو اس کی پارٹی میں بھی سافٹ ہندتو کا زہر داخل ہو گیا,پھر عام لوگوں میں یہ تعصب سرایت کر گیا۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کےلوگ مسلمانوں کے خلاف تعصب پھیلاتے رہتے ہیں۔میڈیا بھی ان سب کے ساتھ ہے۔سوشل میڈیا پر کئی چینل ہیں جو صرف ہندو مسلم تعصب پھیلاتے رہتے ہیں اور مسلمان بالکل سوئے ہوئے ہیں۔انہیں کچھ فکر ہی نہیں۔ایک سکون اور سناٹا کے بعد اچانک مسلمانوں پر مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے تو تھوڑا سا بیدار ہوتے ہیں,پھر چند دنوں بعد گہری نیند میں خراٹے بھرنے لگتے ہیں۔
دراصل مسلمانوں کے خلاف یہ تعصب سیاسی طاقتوں نے پھیلایا ہے۔اس کا ایک علاج یہ ہے کہ مسلمان بھی سیاسی قوت پیدا کریں اور اپنے سیاسی پلیٹ فارم سے غیروں سے تعلقات قائم کریں اور لوگوں کو امن و انصاف کی طرف بلائیں,تب عصبیت کے جراثیم مر سکتے ہیں۔مسٹر اویسی کو قوت دی جائے۔امید کہ کچھ کام کرے۔
ایک تدبیر یہ ہے کہ عوامی سطح پر غیر مسلموں سے رابطے کئے جائیں تو اس کا بھی کچھ فائدہ ہو گا اور ماضی میں شودروں پر برہمنوں کے مظالم اور شودروں کے ساتھ مسلم امرا وحکام کے احسانات کا ذکر کیاجائے۔ہندی میں ایسے لٹریچرس شائع کئے جائیں۔سوشل میڈیا پر ایسی تحریریں پھیلائی جائیں تو امید ہے کہ تعصب کا وائرس کچھ کم ہو۔
اگر سوشل میڈیا پر کوئی چینل بنایا جائے اور غیر مسلم اینکرس اور اسپیکرس کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کی جائے تو بھی عصبیت کم ہو سکتی ہے۔
بلا علاج کوئی بیماری ختم ہونے کی امید بہت کم ہے۔دنیا کو اللہ تعالی نے عالم اسباب بنایا ہے۔سبب اختیار کرنا ہو گا۔اللہ تعالی کی قدرت یقینا لا محدود ہے,لیکن نظام قدرت پر بھی غور کرنا ہو گا۔
مسلم اینکرس اور اسپیکرس کے ذریعہ عصبیت کے جراثیم ختم ہونے کی امید کم ہے۔الجنس یمیل الی الجنس۔کوا کووں کی بولی سمجھتا ہے اور اسی کے جھنڈ میں اڑتا ہے۔کبوتر کبوتروں کے ساتھ اور طوطا طوطوں کے جھنڈ میں اڑتا ہے۔
ارباب عقل وخرد مزید تدابیر بتا سکتے ہیں۔ہم نے اپنی سمجھ سے چند باتیں رقم کر دی ہیں,تاکہ لوگ اس جانب متوجہ ہوں اور غور و فکر کریں۔
قوم کے بہت سے افراد زندہ ہیں,لیکن صحیح قائد اور صحیح لیڈر میسر نہیں۔اکثر لوگ اپنے مفاد کی فکر میں مبتلا اور خود غرضی کے مریض ہیں۔
بعض صالح فکر لیڈر اور قائد ضرور ہیں,لیکن ان کے اسباب ووسائل اتنے وسیع نہیں کہ وہ کچھ کر سکیں۔جب کسی قوم پر تباہی مسلط ہوتی ہے تو اس کی عقل اندھی اور لوگ بصیرت سے محروم ہو جاتے ہیں۔