شفیق احمدابن عبد اللطیف آئمی
مالیگاؤں، 7020048083
انعام کا راستہ: سورہ الفاتحہ میں ہے :ترجمہ’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام کیا۔‘‘(سورہ الفاتحہ) اس آیت کی تفسیر میںقاضی ثناء اﷲ پانی پتی لکھتے ہیں۔’’الذین انعمت علیہم‘‘ سے مُراد وہ نفوسِ قُدسیہ ہیں،جنہیں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ایمان و اطاعت پر ثابت اور مضبوط رکھا ہے۔یعنی انبیائے کرام ،صدیقین،شہداء ،اور صالحین۔‘‘(تفسیر مظہری)اس آیت کی تفسیر میں جسٹس پیر محمد کرم شاہ لکھتے ہیں :’’اِن الفاظ سے راہِ حق کی ایسی نشاندہی فرما دی تاکہ تعصب اور ضد سے بلند ہو کر جو اِس کا متلاشی ہو وہ اسے پہچان سکے۔فرمایا:جن لوگوں پر میں انعام فرمایاہے اورجس راستہ پر وہ چل رہے ہیں وہی سیدھا راستہ ہے اور اُن لوگوں کے متعلق بھی تصریح فرما دی ’’من النبین والصدیقین و الشہداء والصالحین‘‘ کہ میرا انعام نیبوں ، صدیقوں ، شہیدوں ، اور نیک بندوں پر ہے۔ ‘‘ (تفسیر ضیا القرآن) اس آیت کی تفسیر میں محمد لقمان سلفی لکھتے ہیں۔’’اس میں’’ صراط مستقیم ‘‘کی تفسیر بیان کی گئی ہے کہ ’’صراط مستقیم ‘‘سے مُراد اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر اﷲ کا انعام ہوا۔یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر سورہ النساء میں آیا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:ترجمہ’’جو لوگ اﷲ اور اُسکے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اطاعت کریں گے،وہ اُن کے ساتھ ہوں گے۔جن پر اﷲ نے انعام کیا،یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء و صالحین کے ساتھ ہوں گے اور یہ لوگ بڑے ہی اچھے ساتھی ہوں گے۔‘‘(سورہ النساء آیت نمبر ۶۹ تفسیر تیسر الرحمن فی لبیان القرآن)اس آیت کی تفسیر میں مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں۔’’مُراد دین کا انعام ہے۔اِن انعام والوں کا پتہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں دوسری جگہ بتلا دیا ہے کہ وہ انبیاء ، اور صدیقین، اور شہداء، اور صالحین ہیں۔وہ آیت سورہ النساء کی آیت نمبر ۶۹ ہے۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن )مولانا محمد آصف قاسمی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔’’جن لوگوں پر آپ نے انعام کیا،کرم کیا۔ایک بندہ اﷲ سے درخواست کرتا ہے کہ ہمیں اُس راستے پر چلایئے،جو آپ کا پسندیدہ راستہ ہے ۔وہ راستہ نہیں جسے ہم سیدھا راستہ سمجھتے ہیں۔کیوں کہ دنیا میں ایسا کون آدمی یا جماعت ہے،جو اپنے آپ کو صحیح نہ سمجھتا ہو۔ہرایک یہ سمجھتا ہے کہ میں نے جس راستے کو اختیار کیا ہوا ہے ،وہی سیدھا اور سچا راستہ ہے۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ یہ کہوالٰہی !اُن لوگوں کے راستے کی طرف رہنمائی فرما دیجئے،جو آپ کے حکم کے مطابق چلے تو وہ کامیاب ہوگئے،اور آپ کے کرم کے مستحق بن گئے۔وہ کون لوگ ہیں؟سورہ النساء میں فرمایا گیا ہے ،وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ،وہ قیامت میں اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔جن پر اﷲ نے انعام و کرم کیا۔یعنی انبیائے کرام،صدیقین،شہداء،اور صالحین،جن کی رفاقت بھی سب سے بہترین رفاقت اور ساتھ ہے۔‘‘(سورہ النساء آیت نمبر ۶۹؎،تفسیر بصیرت القرآن
انبیاے کرام سب سے زیادہ انعام یافتہ بندے
سورہ الفاتحہ کی آیت ’’صراط الذین انعمت علیہم ‘‘کی تفسیر میں علامہ عماد الدین ابن کثیر لکھتے ہیں:’’اور جن پر اﷲ کا انعام ہوا،اس کا بیان سورہ النساء میں آیت نمبر ۶۹؎ میں آیا ہے۔حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ تُو مجھے ان فرشتوں ، نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں، اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تُو نے اپنی اطاعت اور عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا۔حضرت ربیع بن انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں۔اس سے مُراد انبیائے کرام ہیں۔‘‘(تفسیر ابن کثیر)اس آیت کی تفسیر میںعلامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں۔’’جن لوگوں پر اﷲ تعالیٰ نے انعام فرمایاہے ، وہ انبیاء صدیقین، شہداء، اور صالحین ہیں۔امام محمد بن جریر طبری نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے:ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلاجن پر تُو نے اپنی اطاعت اور عبادت کا انعام کیا ہے۔جو ملائکہ،انبیاء،صدیقین،شہداء اور صالحین ہیں، جنہوں نے تیری اطاعت اور عبادت کی۔(تفسیر تبیان القرآن)اس بات پر پوری اُمت کا اجماع ہے کہ انسانوں میں سب سے افضل ’’انبیائے کرام‘‘ہیں،جو کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار (۰۰۰،۲۴،۱) ہیں۔ اِ ن میں کم و بیش تین سو تیرہ(۳۱۳)رسول ہیںاور اِ ن رسولوں میں پانچ(۵)پانچ سب سے بڑے رسول حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اور سید الانبیاء حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔اور اِن پانچوں میں سب سے افضل سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔
سب سے زیادہ انعام یافتہ بندے
اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام میں سے سب سے زیادہ انعامات سید الانبیاء صلی اﷲعلیہ وسلم کو عطا فرمائے ہیں۔اﷲ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات سے بہت محبت کرتا ہے لیکن اِن سب سے زیادہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کرتا ہے اور سب سے زیادہ انعامات بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہی عطا فرمائے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ’’خاتم الانبیاء‘‘بنایا۔تمام انبیائے کرام علیہم السلام مخصوص زمانے،مخصوص علاقے اور مخصوص قوموں کے لئے آئے لیکن اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کے لئے جس میں تمام قومیں شامل ہیں اور قیامت تک کے لئے رسول بنایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ الفاتحہ صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا فرمائی۔اﷲ تعالیٰ نے سورہ الحجر میں فرمایا:ترجمہ’’اور ہم نے آپ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کوسات آیتیں عطا فرمائیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیںاور قرآن عظیم عطا فرمایا۔‘‘(سورہ الحجر آیت نمبر ۸۷)رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اﷲ کی قسم!اِس جیسی سورہ نہ توریت میں اُتاری گئی، نہ ہی انجیل میں اُتاری گئی اور نہ ہی زبور میں اُتاری گئی ہے۔‘‘(جامع ترمذی،باب فاتحتہ الکتاب)حضرت ابو امامہرضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’چار چیزیں اُس خزانے سے اُتاری گئی ہیں،جو عرش کے نیچے ہے۔اِن چار کے علاوہ اس میں سے کوئی چیز نہیں اُتاری گئی۔(۱)اُم الکتاب(سورہ الفاتحہ)،(۲)آیتہ الکرسی،(۳)سورہ البقرہ کی آخری تین آیات،(۴)سورہ الکوثر۔اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو یہ سورہ عطا فرما کر خاص انعام سے نوازا ہے ۔اس میں سات آیتیں ہیں۔ اور اسے آپ صلی ا ﷲ علیہ علیہ وسلم اور اُمت کا ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ملا۔یہ سورہ ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے،اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے اسے ’’سبع مثانی‘‘یعنی بار بار دہرائی جانے والی آیتیں فرمایا ہے۔
رحمت اللعا لمین کا انعام
اﷲ تعالیٰ نے رسول ا صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو جو انعامات عطا فرمائے ہیں اُن میں سے ایک انعام یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنایا ہے۔سورہ الانبیاء میں فرمایا:ترجمہ’’اور ہم نے تمہیں تمام عالمین کے لئے ’’رحمت ‘‘بنا کر بھیجا ہے۔‘‘(سورہ الانبیاء آیت نمبر ۱۰۷)یہ ﷲ تعالیٰ کا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر بہت بڑا انعام ہے۔یہاں اس کے بارے میں مختصر ذکر کریں گے۔مفصّل ذ کر انشاء اﷲ اس آیت کے ضمن میں کریں گے۔ یہاں خاص بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ انعام صرف آپ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے۔جس طرح اﷲ تعالیٰ تمام جہانوں کا’’رب العالمین‘‘ ہے۔اُسی طرح اُس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ’’رحمتہ اللعالمین‘‘بنایا ہے۔یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تمام مخلوق کے لئے ’’رحمت‘‘ہیں۔عرش کے لئے بھی ’’رحمت‘‘ ہیں،فرشتوں کے لئے بھی ’’رحمت‘‘ہیں،زمین و آسمان ،چاند اور ستاروں کے لئے بھی ’’رحمت‘‘ہیں۔زمین پر تمامجمادات،نباتات،اور حیوانات کے لئے بھی ’’رحمت‘‘ہیں،اور تمام انسانوں اور جناتوں کے لئے بھی ’’رحمت‘‘ہیں۔یہاں ایک خیال ذہن میں اُبھرتا ہے،کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں،(یعنی کافر)۔تو اُن کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کس طرح رحمت ہوئے؟جواب یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کی اُمتیں گزریں،جب وہ کفر و شرک اور گناہوں میں حد سے بڑھ جاتے تھے،تو اُن پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب کسی نہ کسی صورت میں آجاتا تھا۔لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خصوصی طور سے دعا کی کہ میری اُمت پر ایسا عذاب نہ آئے جو پچھلی اُمتوں پر آیا۔اﷲ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی،اور کافر اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے دنیا میں محفوظ ہوگئے۔یہ کافروں کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ’’رحمت‘‘ ہیں۔