خدائے قائم و قیوم کی ذات نے بنی نوع انسان کو ان گنت نعمتوں سے بہرہ ور فرمایا (وان تعُدُّو نعمة الله لا تحصوها) (القرآن) ( اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم شمار نہیں کرسکتے)انہیں لا محدود نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت علم ہے۔علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی۔ عالم اور جاھل کے درمیان امتیاز کرنے کا ایک واحد ذریعہ علم ہے۔ علم ہی کے ذریعے انسان طبقۂ انسانی کے مابین سرفراز اور سربلند ہوتا ہے۔یوں تو پرودگارِ عالم نے ہر ایک کو قوت گویائی عطا کی ہے، مگر صحیح معنوں میں ناطق حقیقی عالم ہی ہے۔علم ہی کی بدولت انسان تہذیب و تربیت سے آراستہ اور اخلاق حسنہ کا خوگر بنتا ہے۔ دل کی تاریکیوں کو دور کرکے اس کو نور و ضیاء بخشنے والی عظیم شیئ علم ہی ہے۔ جیسا کہ چند آیات اس پر شاہد ہیں۔
(١) { قُلْ هل يسْتَوي الذين يعلمُونَ والذين لا يعلَمُونَ}
(٢) { يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ } (القرآن)
(٣) مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (الحديث)
(٤). فضلُ العالمِ على العابدِ كفضلي على أدناكم (الحديث)
ہر علم، فضل و کمال کا حامل ہوتا ہے عام ازیں کہ اس کا تعلق دنیا سے ہو یا دین سے مگر آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ میں جس علم کے فضیلت کا ثبوت ملتا ہے وہ علم دین ہے
اس دنیائے رنگ و بو میں ہر خوش عقیدہ مسلمان دین و ملّت کی بڑھوتری اور ترقیاتی امور میں کسی نہ کسی طرزِ عمل سے سرگرم اور مشغول رہتا ہے مگر علماء کرام کو اِس معاملے میں نمایاں اور خاص مقام حاصل ہوتا ہے کہ جو مسلک و مذہب کے فروغ و استحکام اور باطل کے سدِّ باب اور رو سیاہی میں ہمہ وقت پرجوش اور فعال رہیں، جو تقاضائے وقت اور موقع محل کے اعتبار سے متحمل مزاج اور صبر آزما واقع ہوں، جو اپنی ذاتی خواہشات کا خون کرکے امت کو عبرت و نصیحت کا درس دینے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہیں، ارشادات و تعلیمات محمد ﷺ کو عام کرنا جن کا اولینِ مقصد ہو، جن کی فضیلت و برتری پر نصوص قطعیہ اور احادیث صحیحہ وارد ہوں ،جن کی حاجت و ضرورت لوگوں کو اِس گل کدہ فردوس کے ساتھ ساتھ دار القرار میں بھی رہے، روز محشر جن کو شفاعت کا اذن ملے؛ اِن عظیم مراتب والی جماعت کو آج کی ہماری بے حس قوم نکتہ چینی اور اعتراض کا مرکز بنائی ہوئی ہے، کہ امام صاحب یا عالم دین کی توہین و تذلیل ، تحقیر و تحمیق اور اس کے ساتھ بدگوئی سے پیش آنا اُن کا اولینِ عمل رہتا ہے،اور ایسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کو سن کر ذہن متزلزل ہوجاتا ہے۔ مثلا ً
١) علماء سب چور ہوتے ہیں
٢) علماء صرف کھانے پینے کے لئے مکاتب و مدارس کا رخ کرتے ہیں
٣) علماء صرف پیسے کے چکر میں رہتے ہیں ….. وغیرہ وغیرہ
اے لوگوں ہوش کے ناخن لو !!! آپ اپنی فکر قبیح پر ماتم کرو کہ خود تو دنیا کی ہر نعمت سے لطف اندوز اور بہرہ ور ہونا چاہتے ہو، خود کے لئے 30 40 ہزار کی نوکری کو بھی ذریعۂ معاش کے لئے ناکافی سمجھتے ہو اور علماء کے لئے 10 15ہزار سے زیادہ کی تنخواہ کو مثلِ حرام سمجھتے ہو، یہ تو اُسی طرح ہوگیا کہ اردو کا ایک مقولہ ہے "سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے”( کہ اپنا کام بھی بن جائے اور پیسہ بھی زیادہ خرچ نہ ہو)
کہانی اپنی رفتار یوں پکڑتی ہے کہ جب ایک شخص آٹھ دس سالہ مدرسہ کی زندگی گزارنے اور تعلیم و تربیت سے آراستہ کے بعد جب کوئی عالم دین بنتا ہے اور دین متین کی خدمت اور اس کی تعمیر اور ترقی جیسی نیک نیتی کے ساتھ گاؤں، دیہات اور ملک و بیرونِ ملک کا رخ کرتا ہے نیز وہ اپنے عمل پر برابر مستعد بھی رہتا ہے مگر پھر بھی جب اپنے عزائم اور اہداف کے برعکس صورتحال پاتا ہے، اپنے متعلق عوام الناس کی عدم تیقنی، بے حمایتی ساتھ ساتھ لعن طعن، بد ظنی اور بد گوئی سے دو چار ہوجاتا ہے تو شاخ سے گرے ہوئے خشک پتے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے اور رقت انگیز جذبات کے طلاطم میں ڈوب جاتا ہے
بھر تمام تر جہات سے ناامید اور لاچار ہوجانے پر وہ اپنا الگ رخ اختیار کرلیتا ہے خواہ وہ بدیس میں جاکر کام کرنا ہو یا کسبِ معاش کے دیگر ذرائع اپنانا….
ہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر اور ناقابل فراموش ہے کہ بعض ( نیم حکیم خطرِ جان نیم ملا خطرِ ایمان والے) حضرات عالم کا لبادہ اوڑھ کر ایسے قبیح افعال انجام دے گئے ہیں ، جن کی وجہ سے علماء پر عوام الناس کے نظریات متزلزل ہوئے اور علماء کی قدر و منزلت بھی قدرے پست ہوئی ۔
ان کے تعلق سے حدیث پاک میں ارشاد ہوا۔
ألا وإن العالم من يعمل بالعلم وإن كان قليل العمل( کنز العمال ج١٠ ص٧٦)
یعنی حقیقی عالم وہی ہے جو اپنے علم پر عمل پیرا ہو (مفہوم)
پس علماء کی گراں قدر جد و جہد اور سعی مسعود کے باوجود جب اُن پر طعن و تشنیع کرنا ہی لوگوں کی رِیت بن جاے تو نتیجۃً لوگوں میں عقائد صحیحہ کی عدمِ پختگی ، احکامِ الٰہی میں سرکشی و نافرمانی ، دعوت حق کے انحراف ، حدود اسلام کی غیر پابندی ، فتنہ و فساد پروری ، فرقہائے باطلہ کے ساتھ رشتہ قائم کرنا وغیرھم جیسے نت نئے، مذموم مسائل درپیش لازم امر ہے۔
اور یہ سب باتیں محض قوت واہمہ کے مخترعات اور تخیُّلات کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی حقیقتِ حال اور اس کا المیہ ہے جو ہر ایک پر منکشف ہے۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
( ڈاکٹر اقبال)
اس لئے میں کہتا ہوں * جب دل میں علماء کے لئے
عزت نہیں ہے تو ان کے بتائی بات دل پہ کیسے اترےگی*؟؟؟
بس انہیں تمام حالاتِ زار کو دیکھتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ جملہ مومنین و مسلمین کو عقل سلیم عطا فرمائے ، لوگوں کے دل کو علماء کے لئے عزت کا مسکن بنائے، جملہ مسلمانوں کو دین اسلام بر گامزن رہنے کے توفیق جلیل عطا فرمائے ، میری اس سعی جمیل کو قبول فرمائے ،جملہ طلبۂ نیپال بالخصوص اس فقیر قادری سے دینِ متین کا خوب خوب کام انجام لے ؛نیز میری خامہ فرسائی میں مزید قوت اور نکھار پیدا فرمائے۔
(آمین یا رب العالمین)
بالآخر سلام مسنون
راقم الحروف: محمد جمیل میاں قادری
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی شریف ،مئو ضلع ، انڈیا