تحریر : محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یوپی انڈیا
مکرمی! موجودہ وقت میں مسلمانوں کی حالت ہندوستان میں ایسی ہے کہ انگریزوں کے دور حکومت میں بھی ایسی نہیں تھی طرفہ تماشا یہ کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت خصوصاً مسلمانوں کے لئے ویسے ہی جیسے ہٹلر کی حکومت کبھی یہودیوں کے لئے ہوا کرتی تھی اور یہ ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے کہ ملک کی باگ ڈور جب فاشسٹ طاقتوں کے ہاتھوں میں چلی جائے تو ملک کے اندر خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں مگر ہم مسلمانوں کو غور و فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے یاد رکھئیے اگر ایسے ہی ہماری کج فکری اور بداعمالیاں جاری رہیں تو اس سے بھی بڑھ کر اور بڑے بڑے ظالم حکمران آتے رہیں گے کیوں کی ہم اپنی غلطیوں کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے اور حکمرانوں کو کوسنے کے لئے تو تیار بیٹھے ہیں مگر بہتر حکمت عملی اپنانے کو تیار نہیں ہیں اور اپنے بہتر مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے تیار نہیں ہیں گناہ و معصیت سے بچنے کو تیار نہیں ہیں۔
10 مارچ کو یوپی اسمبلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہمارے بہت سے بھائیوں کے کثیر تعداد میں کمنٹ،تجزیے اور تبصرے ہوں گے سوشیل میڈیا پر ایک نئی جنگ چھڑے گی بڑی تعداد میں لوگ EVM مشین کا رونا روئیں گے کچھ الیکش کمیشن پر سانٹھ گانٹھ کا الزام لگائیں اور کچھ اویسی صاحب کو گالیاں دیں گے اور کچھ آر ایس ایس کے سر پہ اپنی غلطیوں کا سہرا باندھ دیں گے مگر کوئی بھی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرے گا کہ ہمارے اندر بھی کچھ کمی ہے یا نہیں؟یہ ظالم حکمران آخر کیوں ہم پر مسلط کئے جا رہے ہیں؟ ہم پر ظلم و ستم جبر و تشدد میں دن بہ دن اضافہ آخر کیوں ہوتاجا رہا ہے؟کسی بھی شخص کو اپنے اندر کوئی کمی نظر نہیں آۓ گی ہر شخض اس کا سیاسی حل تلاش کرتا پھرے گا اگر ایسا کر لیتے تو ویسا ہو جاتا اگر ویسا کر لیتے تو ایسا ہو جاتا غرضیکہ بحث و مباحثے تو بہت ہوں گے مگر کوئی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرے گا. میں اپنی بات کو ایک مثالی واقعہ کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں "شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات” پرانے زمانے میں ایک سُنار تھا جو کے بمبئی کا رہنے والا تھا لاہور گیا اس کے پاس کافى موتى تھے اس نے وه موتى ایک مجلس میں کھولے اور سب کو دکھانے لگا، اس نے ایک موتى جیب میں سے نکالا اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے بولا کے یہ موتى شب افروز ہے یعنی رات کو چمکتا ہے۔
جب اس نے سامان سمیٹا اور اُٹھ کر جانے لگا تو ایک چور جو اسى مجلس میں بیٹھا تھا پوچھنے لگا جناب کہاں کے ارادے ہیں۔ سُنار نے جواب دیا بمبئی جا رہا ہوں چور نے کہا: اتفاق دیکھیں میرا بھی وہیں جانے کا پروگرام ہے چلیں ساتھ چلتے ہیں. یہ سُنار بھى سمجھ گیا کے یہ میرا ہمسفر نہیں ہے بلکہ اس موتى کے پیچھے ہے لیکن سمجھدار تھا کہنے لگا آؤ چلتے ہیں. دونوں مل کر چل پڑے سارا دن سفر کیا اور شام کو جب سونے لگے تو چور نے اپنی سدری کو جو قمیض کے اوپر پہنی ہوئی تھی اُتار کر علیحدہ ایک جگہ پے لٹکا دی سُنار نے وه موتى اپنى جیب سے نکالا اور نظر بچا کر وه قیمتی موتى چور کى جیب میں رکھ دیا اور خود بے فکر ہو کر سو گیا اب یہ چور رات کو اُٹھا اور اس کى جیب اس کا سامان سب دیکھنے لگا لیکن کہیں بھى موتى نہ ملا آخر وه سو گیا صبح اُٹھتے ہی سُنار نے نظر بچا کر وه قیمتی موتى اس کى جیب سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیا جب چور اُٹھا تو اس نے ناشتہ کرتے ہوئے سُنار سے باتوں باتوں میں پوچھا کے تمہارے پاس جو قیمتی موتى تھا وه کہاں ہے رات کو چمک بھى نہیں رہا تھا سُنار نے موتى جیب سے نکال کر دکھایا اور کہا کے یہ تو میرے پاس ہے۔ چور حیران ہو گیا کے میں نے اس کى پورى جیب چھان ماری لیکن مجھے یہ نہ ملا لیکن اس نے ابھى جیب سے نکال کر دیکھا دیا خیر آج رات ضرور نکال لوں گا سُنار نے اگلى رات پھر وہی عمل کیا ادھر چور بھى سارى رات ڈھونڈتا رہا لیکن کچھ نہ ملا صبح کو پھر وہی ماجرا کے موتى سُنار کى جیب سے نکل آتی یہی کام تین سے چار دن چلتا رہا آخر چور نے ایک صبح سُنار سے کہا کے میں آپ کا ہم راہی نہیں تھا میں بس آپ کے ساتھ اس موتى کى خاطر آیا تھا آج میں آپ کو اُستاد مانتا ہوں آپ مجھے بتائیں کے آپ یہ موتى رات کو رکھتے کہاں تھے اس نے کہا میاں تم میری جیب ٹٹولتے رہے کبھى اپنى جیب میں بھی ہاتھ ڈالا ہوتے تو وہ موتی تمھیں مل جاتا آج ہماری مثال بھی اس چور کى طرح ہے جو لوگوں کے عیب ڈھونڈتا پھر رہا ہے اور کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی غلطیاں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے. احمد علی برقی اعظمی نے کہا تھا کہ :
نظر آتا ہے جن کو کھوٹ اسلام و مسلماں میں
نہیں کیوں دیکھتے وہ جھانک کر اپنے گریباں میں