ازقلم: خلیل احمد فیضانی
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یقین محکم ہمارے بزرگوں کا وطیرہ رہا ہے- انہیں قدم قدم پہ مصائب درپیش ہوتے لیکن کبھی بھی ان کا پاے ایقان متزلزل نہیں ہوا-
یقین مفتاح ولایت ہے کہ اکثر معرکے اسی کے صدقے سر ہوتے ہیں- اخروی کام یابی کا دارومدار اسی یقین پر ہے جیسا کہ حضرت بایز بسطامی رحمة اللہ تعالی علیه فرماتے ہیں کہ میں تیس سال تک طلب مقصود(قرب الہی,معرفت الہی) میں صحرا نوردی کرتا رہا… تیس سال بعد مجھےپتا چلا کہ سارے مقامات تو یقین سے ہی طے کیے جاتے ہیں –
اخلاف نے یہ واقعہ جب اپنے عقیدت کیشوں کو سنایا تو انہوں نے سوالاً عرض کیا کہ جب سارے مقامات یقین سے طے ہوسکتے ہیں تو ہمیں جنگلات میں جاکر کمر توڑ مجاہدات کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
اس سوال کا ان بزرگوں نےکیا ہی بصیرت افروز جواب دیا کہ ایسا یقین( جس کی بات حضرت بایزید بسطامی علیه الرحمه فرمارہے ہیں) اول وہلہ میں ہی پیدا نہیں ہوجاتا بلکہ اس درجہ کے یقین کے حصول کے لیے پہلے اپنے آپ کو ایک طویل مدت تک مجاہدات کی بھٹی میں جھونکنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر یہ دولت بے بہا نصیب ہوتی ہے-
اس واقعہ سے یہ سبق ملا کہ یقین بہت بڑی چیز ہے ….یقین محکم, منزل مقصود تک پہنچاتا ہے-
شبہات شیطانیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے…
مضبوط یقین,بلند ہمت افرادکا شعار رہا ہے…اور وہ کتمان مصائب جیسے وصف سے متصف ہوجاتے ہیں
جب کہ پلپلے مزاج کے حامل افراد اکثر مسائل میں شکوہ کناں رہتے ہیں …-
بلا ریب! یقین وہ دولت عظمی ہے کہ جس کو نصیب ہوجاتی ہے اس کے مقدر کا ستارہ اوج ثریا سے بھی عروج پر پہنچ جاتا ہے-
آج ہماری دعائیں یقین محکم سے خالی ہوچکی ہیں- حدیث پاک میں ہے:”ادعوا اللہ وانتم موقنون بالاجابه” یعنی اللہ تعالی سے اس یقین کے ساتھ دعا کرو کہ وہ تمہاری دعا قبول فرماےگا-
آج بھی اگر یقین کے چراغ ہمارے دلوں کی بنجر زمین پر فروزاں ہوجاۓ تو نصیبے بدل سکتے ہیں..
اندھیرے چھٹ سکتے ہیں….ظلمتیں کافور ہوسکتیں ہیں….روحانیت کی خوشبو سے فضا معطر ہوسکتی ہے…. بشرطیکہ ہم اپنے رب کریم پر کامل یقین رکھنے والے ہوجائیں۔