مذہبی مضامین

تاویلات اقوال کلامیہ (قسط سوم)

ازقلم: طارق انور مصباحی، کیرالہ

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے ایک فتویٰ کی تشریح

مسئلہ۶۵: شبہہ پیش کردہ بعض اہل علم:25:ربیع الآخر شریف 1335ھ
بلاشبہہ اشرف علی تھانوی اپنی عبارت خفض الایمان میں حق کا معاند ہے، مگر تکفیر میں یہ شبہہ ہے کہ وہ علوم غیبیہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاانکار نہیں کرتا،بلکہ اطلاق لفظ عالم الغیب کا۔ تیسری شق جو مصحح ثبوت علوم کثیرہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے، اس نے دھوکا دینے کے لیے قصداً چھپالی اور زید پر براہ فریب و مغالطہ ایک الزامی ایراد قائم کیا،اس سے وہ حق کا معاند ضرور ہے، مگر کافر نہ ہوا۔ہم اسے دیکھتے ہیں کہ وہ خشوع وخضوع سے نماز پڑھتا ہے،وہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کرتا۔

الجواب: اشرف علی تھانوی سے زیادہ اپنی مراد کون بتاسکتا ہے،اس نے جو عرق ریزی وحرکت مذبوجی”بسط البنان“میں کی اس پر شدید قاہر الٰہی رد”وقعات السنان“وغیرہ میں ملاحظہ ہوں، مگر ایک ذی علم کے لیے کشف شبہہ کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ یہ سوال حاضر کیا جاتا ہے جس میں سراسر عبارت خفض الایمان کا پورا چربہ ہے اس کا جواب دیتے،بلکہ ان شاء اللہ تعالیٰ ملاحظہ کرتے ہی کھل جائے گا اورشبہہ کا وسوسہ دھواں ہوکر اڑ جائے گا:وباللہ التوفیق۔

سوال یہ ہے کہ کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ زید نے حمدِ الٰہی میں کہا:اے سخی داتا الہ العٰلمین۔اس پر حمید وولیددو شخصوں نے اعتراض کیا۔

حمید:یہ ناجائز ہے۔اسمائے الٰہی تو قیفی ہیں۔ اللہ عزوجل کو جواد کہا جائے گا، سخی کہنا جائز نہیں، حواشی حاشیہ خیالی علی شرح العقائد النسفی میں اس کی تصریح ہے۔

ولید: اللہ عزوجل کی ذات مقدسہ پر سخاوت کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہوتو دریافت طلب امریہ ہے کہ اس سخاوت سے مراد بعض عطا ہے، یعنی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شخص کو کچھ نہ کچھ دے دینا، اگرچہ ایک نوالہ یا ایک کوڑی، یا کل عطا کہ کسی سائل کا کوئی سوال کبھی نہ پھیرا جائے،ہمیشہ جو کچھ مانگے، اسے دیا جائے۔

اگر بعض مراد ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی کیا تخصیص ہے۔ایسی سخاوت تو زید عمرو ہر ذلیل ورذیل ہر بھنگی چمار کو بھی حاصل ہے، کیوں کہ ہر شخص سے کسی نہ کسی چیز کا دینا واقع ہوتا ہے تو چاہئے کہ سب کو سخی داتا کہا جائے،پھر اگر زید اس کا التزام کرے کہ ہاں میں سب کو سخی داتا کہوں گا تو پھر سخاوت کو من جملہ کمالاتِ الٰہیہ شمار کیوں کیا جاتا ہے، جس امر میں مومن، بلکہ شریف شخص کی بھی خصوصیت نہ ہو،وہ کمالات الوہیت سے کب ہوسکتا ہے؟

اوراگرالتزام نہ کیا جائے تو خداوغیرخدامیں وجہ فرق بیان کرنا ضرور ہے،
اور اگر تمام عطایا مراد ہیں اس طرح کہ اس کا ایک فرد بھی خارج نہ رہے تو اس کا بطلان دلیل نقلی وعقلی سے ثابت ہے انتہی۔

ولید کے اس کلام پر حمید واکابر علمائے کرام نے کفر صریح ہونے کا حکم کیا۔ سعید کو اس میں یہ شبہات ہیں:ہم دیکھتے ہیں، ولید خشوع خضوع سے نماز پڑھتا ہے،وہ اللہ تعالیٰ کی توہین کرتا، اس کا مقصود اطلاق لفظ سخی پر انکار ہے، نہ کہ عطائے الٰہی کا ابطال۔تیسری شق جو مصحح ثبوت عطائے الٰہیہ ہے،اس نے دھوکا دینے کے لیے قصداً چھپالی اور زید پر براہ فریب ومغالطہ ایک الزامی ایراد قائم کیا۔اس سے وہ حق کا معاند ضرور ہے،مگر کافر نہ ہوا۔
اب علمائے کرام سے استفسار ہے کہ:

(1) آیا کلام ولید میں اس تاویل کی گنجائش ہے؟

(2) محض لفظ سخی کے اطلاق پر انکار وہ تھا جو حمید نے کیا یا یہ جو ولید نے کہا؟

(3) منشائے اطلاق یعنی عطا کو دو شقوں میں منحصر کردینا،ایک وہ کہ خدا میں بھی نہیں، دوسرے وہ کہ بھنگی چمار میں ہے،اور اس بناپراسے کمالاتِ الٰہیہ سے نہ جاننا اور خد ااوراس کے غیر ہر بھنگی چمار میں فرق پوچھنا محض اطلاق لفظ سخی کا انکار ہوگا،یااللہ عزوجل کی صفت کمالیہ عطا کاصریح ابطال ہوگا؟

(4) اس تقریر سے عطا کو کمالاتِ الٰہیہ سے نہ جاننا اور خدا اور بھنگی چمار میں فرق پوچھنا اور اللہ تعالیٰ کی خصوصیت نہ جاننا،ہر بھنگی چمار کے لیے بھی حاصل ماننا یہ توہین شان عزت ہے یانہیں؟

(5) اس کلام کے سننے سے کسی طرح کسی کا ذہن اس طرف جاسکتا ہے کہ یہ ابطال عطائے الٰہی نہیں،نہ اس کے کمال پر حملہ، نہ اس قسم عطا میں جو اسے حاصل ہے، اس کی خصوصیت کا انکار،نہ ہر بھنگی چمار کی اس میں شرکت کا اظہار،بلکہ باوصف صحت معنی وحصول مبنی صرف بالخصوص لفظ سخی پر انکار ہے۔

(6) جو معنی کسی طرح کلام سے مفہوم نہ ہو سکیں، کیا ان کی طرف پھیرنا کفر کانافی ہو سکتا ہے۔ شفائے امام قاضی عیاض وغیرہ کتب معتمدہ ائمہ میں تصریح ہے کہ:التاویل فی لفظ صراح لایقبل (صریح الفاظ میں تاویل مقبول نہیں ہوتی۔ت) ایسی تاویل مسموع ہوتو کوئی کلام کفر نہ ٹھہرسکے۔اردت برسول اللہ العقرب (میں نے رسول اللہ سے مراد بچھو لیا ہے۔ ت)کی تاویل اس تاویل سے قریب تر ہے یانہیں کہ بلاشبہہ عقرب بھی خداہی کا بھیجا ہوا ہے۔

(7) صحیح بخاری شریف میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد کہ:ذٰلک اخبات النفاق(یہ نفاق کا خضوع ہے۔ت)اس خشوع وخضوع کا جواب کافی ہے، یا یہ کہ کوئی کیسا ہی کفر کرے،جب بعض اعمال صالحہ کرتا ہو، کافر نہیں ہوسکتا:بینواتوجروا۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد 14:ص315-313-جامعہ نظامیہ لاہور)

منقولہ بالا فتویٰ کو دیکھ کر بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس کو تھانوی وغیرہ کے کلام کے کفریہ ہونے میں شبہہ ہو جائے،اوروہ شبہہ کے سبب اسے کافر نہ مانے تواس پر کوئی اعتراض نہیں۔ خلیل بجنوری کواشخاص اربعہ کے کلام کے کفر یہ ہونے میں شبہہ ہوگیا تھا،جس کے سبب وہ کف لسان اور ان لوگوں کے کفر کا انکار کرتا تھا۔علمائے اہل سنت وجماعت نے اس کے شبہات وتاویلات کو قبول نہ کیا اور ایک سواسی علمائے کرام نے اس کی تکفیر کی تصدیق کی۔سب کچھ دیکھ سن کر بھی لوگ عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں۔

تشریحات وشرعی احکام:

(1)شبہ یا توحکم شرعی میں ہوگا،یا متعلقات حکم میں ہوگا۔دونوں کا حکم جدا گانہ ہے۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے اشخاص اربعہ کی تکفیر کلامی کی۔ علمائے عرب وعجم نے بھی اس کی تصدیق وتائید فرمائی۔عوام وخواص اس حکم شرعی کو صحیح مانتے ہیں۔
زید کوخبر متواتر کے ذریعہ یقینی طورپر معلوم ہوگیا کہ علمائے حق نے قادیانی کے دعوی نبوت کے سبب اس کی تکفیر فرمائی ہے۔ زید کو حکم شرعی کا قطعی اور یقینی علم ہے۔جس حکم شرعی کا قطعی علم ہے، اسے ماننا ہوگا۔اگرمتعلقات حکم مثلاً دلیل تکفیر،یاکلام کے کفریہ معنی میں متعین ہونے میں یاشرائط ولوازم میں شبہہ ہوجائے تو متعلقات حکم میں شبہہ کے سبب اصل حکم کے انکار کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
خلیفہ راشد ہادی مہدی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکات سے جہاد کا حکم فرمایا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دلیل حکم میں شبہہ ہوا۔ آپ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اپنا شبہہ پیش فرمایا۔ جواب پاکر حددرجہ مطمئن اور مسرور ہوئے۔ یہ بات مسلمانوں کومعلوم ہے کہ خلیفۃ المسلمین اور امیرالمومنین کے حکم کوماننا لازم ہے۔قرآن مقدس میں حکم الٰہی ہے:(اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم) (سورہ نساء:آیت 59)

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسلمین کے حکم کا انکار کیسے فرما سکتے ہیں۔ انہیں دلیل میں شبہہ ہوا، جس کا تشفی بخش جواب لینے دربار صدیقی میں حاضر ہوئے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دلائل سے مطمئن ہوکر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ جو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،وہ حق ہے۔

روی الامام مسلم رحمہ اللّٰہُ تَعَالٰی:(عن ابی ہریرۃ قال:لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واُستُخلِفَ ابوبکر بَعدَہٗ-وَکَفَرَ مَن کَفَرَ مِنَ العَرَبِ-قال عمر بن الخطاب لابی بکر:کیف تُقَاتِلُ الناس،وقد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:اُمِرتُ اَن اُقَاتِلَ الناس حَتّٰی یقولوا:لا الہ الا اللہ-فَمَن قَالَ:لا الہ الا اللّٰہ،عصم منی مالہ ونفسہ الا بحقہ وحسابہ علی اللّٰہ تَعَالٰی-فقال ابوبکر:واللّٰہ لَاُقَاتِلَنَّ مَن فَرَّقَ بَینَ الصلٰوۃ والزکٰوۃ-فان الزکٰوۃ حق المال-وَاللّٰہ لَو مَنَعُونی عِقَالًا کانوا یؤدونہ اِلٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، لَقَاتَلتُہُم عَلٰی مَنَعِہٖ-فقال عمر بن الخطاب:فو اللّٰہ ما ہو الا ان رأیت اللّٰہ قَد شَرَحَ صَدرَ ابی بکر لِلقِتَالِ فَعَرَفتُ انہ الحق)(صحیح مسلم: جلد اول:ص37-طبع ہندی)

آغاز اسلام ہی سے مسلمانوں کا یہ طریق کار ہے کہ کسی کو کسی عالم دین کی بیان کردہ حکم شرعی کو سمجھنا ہو، اور ان تک رسائی ہوسکتی ہوتو خود ان سے ہی اس حکم کی توضیح وتشریح طلب کرتے ہیں۔ان تک رسائی نہ ہوسکے تو دیگر علمائے حق سے دریافت کرتے ہیں۔
چو ں کہ تھانوی کی تکفیر کلامی کا فتویٰ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃو الرضوان نے دیا تھا، لہٰذا اس صاحب علم نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان سے شبہہ کا جواب دریافت کیا۔

(2)سائل اہل علم ہیں۔انہیں تھا نوی کی تکفیر اور تھانوی کے کفریہ عقائد کا علم ہے، جیسا کہ سوال ہی سے ظاہر ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ حکم میں شبہہ نہیں تو حکم کوماننا ہے۔ تھا نوی کے کلام کے کفری معنی میں متعین ہونے میں شبہہ ہے تو نہوں نے شبہہ کا جواب دریافت کر لیا۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی صرف اس شبہہ کو دور فرمادیا۔ سائل نے یہ نہیں سوال کیا تھا کہ ہم اس شبہہ کے سبب حکم کفرکا انکار کرسکتے ہیں یانہیں۔اگر ایسا سوال ہوتا تو پھر اس کا جواب رقم کیا جاتا۔ شبہہ کے سبب انکار کرسکتا ہے یا نہیں،اس کا جواب دیگر فتاویٰ میں مرقوم ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ وہ فتاویٰ بھی نقل کیے جائیں گے۔

اگر کوئی شخص کسی عالم سے توحید ورسالت پروارد کیے جانے والے شبہات کا جواب دریافت کرے تو وہ صرف شبہہ کا جواب دیتے ہیں،نہ کہ سائل کی تکفیر کرتے ہیں۔

(3)بالفرض یہی مان لیا جائے کہ سائل کو اصل حکم شرعی میں شبہہ ہے اور وہ اہل علم ہیں توانہیں معلوم ہوگا کہ ضروریات دین میں شبہہ کے وقت شریعت کا حکم کیا ہے۔

ضروریات دین میں توقف کی اجازت نہیں:

اگر کسی کوقطعی عقائد میں اشکال ہوگیاتواگر وہ تحقیق وتفتیش کا اہل ہے تو تحقیق کرے۔ عہد تحقیق میں یہ اجمالی عقیدہ رکھے کہ جو عند اللہ حق ہے،وہی ہمارا اعتقاد ہے۔ اگروہ تحقیق کا اہل نہیں تو اہل علم سے سوال کرے۔آیت مقدسہ:(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)میں یہی حکم دیا گیا کہ عدم علم کے وقت اہل علم سے سوال کیا جائے۔

ایسا نہیں کہ توقف کو اپنا عقیدہ بنالے اوریہ کہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں،یا میرے لیے حقیقت ظاہر نہیں ہوسکی۔باب فقہیات کے ظنی مسائل میں عدم علم کے وقت توقف کی اجازت ہے،لیکن قطعی اعتقادیات میں تلاش حق کا حکم ہے۔جب تک وہ تلاش وتحقیق کر رہاہے،اس وقت تک یہ عقیدہ رکھے کہ جوعند اللہ حق ہے،وہی ہمارا عقیدہ ہے۔ تلاش وتحقیق ترک کرکے خاموش بیٹھ گیا اور توقف کو اپنا عقیدہ بنا لیا تو یہ توقف بھی کفر ہے۔

(1)امام محی الدین محمد بن بہاء الدین(م ۶۵۹؁ ھ)نے حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی تشریح میں رقم فرمایا:

(وَاِذَا اَشکَلَ عَلَی الاِنسَانِ)عَلٰی وَاحِدٍ من نوع الانسان(شَیءٌ مِن دَقَاءِقِ عِلمِ ا لتَّوحِیدِ)مِمَّا یَلزَمُ بِاِخلَالِ الاِعتِقَادِ بِہ اِختِلَالُ الاِیمَانِ(فَاِنَّہٗ یَنبَغِی لَہٗ)اِشَارَۃٌ اِلٰی اَنَّہ لا یجب استحضارُ ہذا الاعتقاد فی خصوص المسألۃ بَعدَ مَا اِعتَقَدَ اِجمَالًا بِصِدقِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی جمیع مَا جَاءَ من عند اللّٰہ-وَاِلَّا فَالاِیمَانُ الاِجمَالِیُّ وَاجِبٌ قَطعًا(اَن یَعتَقِدَ فِی الحَالِ)بلا تاخیرٍ وَلَا تَرَاخٍٍ(ماَ ہُوَ الصَّوَابُ عِندَ اللّٰہِ تَعَالٰی)اَی یَعتَقِدُ اَنَّ الحَقَّ فی نفس الامر ما ہو الحق عند اللّٰہ تَعَالٰی فی عِلمِہ وفی اَمرِہ عِبَادَہ بِالاِعتِقَادِ مِن غَیرِ تَعَیُّنِ وُقُوعِِ النِّسبَۃِ اَو لَا وُقُوعِہا فی تلک المسألۃ-ویومن اِجمَالًا بِمَا ہُوَالحَقُّ فِی حُکمِہٖ(اِلٰی اَن یَجِدَ عَالِمًا فَیَسأَلَہٗ)اَنَّ الحَقَّ مَاذَا عَلَی التَّفصیل(وَلَا یَسَعُہٗ تَاخِیرُ الطَّلَبِ)اَی طَلَبِ الِاعتِقَادِ الحَقِّ فِی المَسأَلَۃِ المُشکِلَۃِ(وَلَا یُعذَرُ بِالوَقفِ فِیہِ)لان الوقفَ رِضَاء ٌبالجَہل فیما یجب الاعتقاد بہ من عقائد الدین فَلَا یَکُونُ مَعذُورًا اِلَّاعِندَ العَجزِ وَالاِضطِرَارِ-فَاِذَا وَجَدَ عَالِمًا بِعِلمٍ وَیَعلَمُ الطَّالِبُ زَالَ العجزُ-فَلَا یُقبَلُ العُذرُ(وَیَکفُرُ اِن وَقَفَ)لانہ اِعرَاضٌ عن الایمان الواجب ورِضَاءٌ بالکفر)
(القول الفصل شرح الفقہ الاکبر:ص426:استنبول ترکی)

(2)علامہ فضل رسول بدایونی نے رقم فرمایا:(اذا اشکل ای التبس علی الانسان من اہل الایمان شَیءٌ من دقائق علم التوحید(۱)یَجِبُ عَلَیہِ اَن یعتقد فی الحال(۲)بما ہو الصوابُ عِندَ اللّٰہِ تَعَالٰی بطریق الاجمال اِلٰی اَن یَجِدَ عَالِمًا فَیَساَلُہٗ وَلَایَسَعُہٗ تَاخِیرُالطَّلَبِ-وَلَا یُعذَرُ بِالوَقفِ عَلَیہِ اَی بِتَوَقُّفِہ فی معرفۃِ ہذہ الاحوال-وعدم تفحصہ بالسوال ویَکفُر(۳)فِی الحَالِ اِن تَوَقَّفَ عَلٰی بَیَانِ الاَمرِ فِی الاِستِقبَالِ-لِاَنَّ التَّوَقُّفَ مُوجِبٌ(۴)لِلشَّکِّ وہوفیما یَفتَرِضُ اِعتِقَادُہ کَالاِنکَارِ-وَلِذَا اَبطَلُوا قَولَ الثَّلجِی من اَصحَابِنَا(۵)حیث قَالَ، اَقُولُ(۶)- بِالمُتَّفَقِ(۷)وَہُوَ اَنَّہ کَلَامُہ تَعَالٰی-وَلَا اَقُولُ:مَخلُوقٌ اَو قَدِیمٌ۔
ہٰذَا-المرادُ بِدَقَاءِقِ عِلمِ التَّوِحِیدِ اَشیَاءٌ یَکُونُ الشَّکُّ وَالشُّبہَۃُ فِیہَا مُنَافِیًا لِلاِیمَانِ وَمُنَاقِضًا لِلاِیقَانِ بِذَاتِ اللّٰہِ وَصِفَاتِہ وَمَعرفۃ کیفیۃ المُومَنِ بِہ(۸) بِاَحوَالِ اٰخِرَتِہ(۹)فَلَا ینافی اَنَّ الاِمَامَ تَوَقَّفَ فی بعض الاحکام(10)لانہا فی شرائع الاسلام-فالاختلافُ فی علم الاحکام رَحمَۃٌ(۱۱)والاختلاف فی علم التوحید والاسلام ضَلَالَۃٌ وَبِدعَۃٌ-والخطاءُ فی علم الاحکام مغفورٌ بل صاحبُہ فیہ ماجورٌ-بخلاف الخطاء فی علم الکلام فانہ کفرٌ (12)وزورٌ(13)و صاحبہ ما زورٌ(14)ہٰذَا مَا اَفَادَہ الاِمَامُ الاَعظَمُ فِی الفِقہِ الاَکبَرِ والقاری فی شرحہ)(المعتقد المنتقد: ص238-المجمع الاسلامی مبارک پور)

(3)امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:((۱)المرادُ بہ عِلمُ العَقَاءِدِ مُطلَقًا فَاِنَّ الحُکمَ کذلک فی جمیع المعتقدات(۲)فیقول فی نفسہ اِعتَقَدتُ بما ہو الحَقُّ عِندَ اللّٰہِ تَعَالٰی فی ہذہ المسألۃ۔
(۳)اِن کانت المسئلۃ من ضروریات الدین(۴)اَی مُثبِتٌ لِلشَّکِّ اِنًّا وَاِن کَانَ مُوجَبًا بِالفَتحِ لِمًّا-وَلَایَنبَغِی اَن یُجعَلَ فی المتن بالفتح-لان مُوجَبَ الشَّیءِ بالفتح لا یستلزم وجودُہ وجودَ الشَّیءِ لِجَوَازِتَعَدُّدِ المُوجِبَاتِ۔
(۵)من اصحابنا اَیِ الحَنفِیَّۃِ فُرُوعًا لَا اُصُولًا-لاَِنَّہ مَعدُودٌ فی المعتزلۃ۔
(۶) فی القُراٰنِ(۷) عَلَیہِ بَینَ الائمۃ(۸)علٰی صیغۃ المفعول ای مَا یُومَنُ بِہ کذا فی شرح القاری-وَلَعَلَّ البَاءَ بمعنٰی مِن -اَی بِمَعرفۃ کیفیۃ ما یُومَنُ بِہ من احوال المعاد۔
(10)کَوَقتِ الخِتَانِ وَغَیرِہ مِمَّا بَلَغَ سَبعًا وَقَد عُدَّت فی رد المحتار
(۱۱)لِجَوَازِ تَقلِیدِ الغَیرِ عند الضرورۃِ بِشَرطِہ المعروف فَہٰذَا الیُسرُ عِندَ العُسرِ اِنَّمَا جَاءَ مِن اِختِلَافِ عُلَمَاءِ الاُمَّۃِ۔
(12)تَارَۃً(13) اُخرٰی (14) مُطلَقًا)
(المعتمد المستند: ص238 -المجمع الاسلامی مبار ک پور)
توضیح:مومن کومومن ماننا اور کافر کلامی کوکافر مانناضروری ہے،کیوں کہ یہ امر ضروریات دین میں سے ہے۔
(۴)محدث ملاعلی قاری حنفی نے رقم فرمایا:}(واذا اشکل)ای التبس(علی الانسان)ای من اہل الایمان(شیء من دقائق علم التوحید)ای ولم یتحقق عندہ حقائق مقام التفرید ومرام التمجید(فینبغی لہ)ای یجب علیہ(ان یعتقد فی الحال ما ہو الصواب عند اللّٰہ تعالٰی)ای بطریق الاجمال(الٰی ان یجد عالما)ای عارفًا بحقیقۃ الاحوال(فیسألہ)ای لیعلم العلم التفصیلی علٰی وجہ الکمال(ولا یسعہ تاخیر الطلب)ای عند ترددہ فی صفۃ من صفات الجلال اونعوت الجمال(ولا یعذر بالوقف علیہ)ای بتوقفہ فی معرفۃ ہذہ الاحوال وعدم تفحصہ بالسوال(ویکفر)ای فی الحال(ان وقف)ای بان توقف علٰی بیان الامر فی الاستقبال،لان التوقف موجب للشک وہو فیما یفترض اعتقادہ کالانکار،ولذا ابطلوا قول الثلجی من اصحابنا حیث قال:اقول بالمتفق،وہوانہ کلامہ تعالی،ولا اقول مخلوق اوقدیم۔
ہذا،والمراد بدقائق علم التوحید اشیاء یکون الشک والشبہۃ فیہا منافیا للایمان ومناقضا للاتقان بذات اللّٰہ تعالٰی وصفتہ ومعرفۃ کیفیۃ المؤمن بہ باحوال آخرتہ،فلا ینافی ان الامام توقف فی بعض الاحکام،لانہا فی شرائع الاسلام فالاختلاف فی علم الاحکام رحمۃ والاختلاف فی علم التوحید والاسلام ضلالۃ وبدعۃ والخطا ئفی علم الاحکام مغفور،بل صاحبہ فیہ ماجور،بخلاف الخطأ فی علم الکلام فانہ کفر وزور وصاحبہ مازور)
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر:ص322-321-دار السلامہ بیروت)

توضیح:توقف کی اجازت نہیں،بلکہ اجمالی اعتقاد کی جوشکل منقولہ بالا عبارتوں میں بیان کی گئی،صرف اس کی اجازت ہے،یعنی جب تک وہ معاملہ حل نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ اس باب میں جو عند اللہ حق ہے،میرا عقیدہ وہی ہے،اور اس پر لازم ہے کہ حق کی جستجو کرتا رہے،یعنی کسی عالم سے دریافت کرے،اورپھر جو صحیح عقیدہ بیان کیا جائے،اس کوتسلیم کرے۔تلاش حق میں تاخیر نہ کرے۔ مذکورہ شرط کے مطابق مدت تحقیق تک اجمالی اعتقاد کی اجازت ہے۔ظہورحقیقت کے بعداس عقیدہ کوماننا لازم ہے۔
کافر کوکافر اور مومن کومومن ما ننا ضروریات دین میں سے ہے۔کافرکلامی کے کفر میں توقف اور شک بھی کفر ہے۔ حق کی تلاش کو ترک کرکے محض یہ اعتقادرکھ لینا کہ جوعند اللہ حق ہے،وہی میرا اعقیدہ ہے،یہ بھی توقف ہے،اوراعتقادیات میں توقف کفر ہے۔

شبہہ یا تاویل کے سبب انکار کی گنجائش نہیں:

امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان نے حسام الحر مین کے حوالے سے رقم فرمایا:
”ان غلام احمد القادیانی ورشید احمد ومن تبعہ کخلیل الانبیتھی واشرف علی وغیرہم لا شبہۃ فی کفرہم بلامجال-بل لا شبہۃ فی من شک-بل فی من توقف فی کفرہم بحال من الاحوال۔ غلام احمد قادیانی ورشید احمد اور جو اس کے پیروہوں جیسے خلیل احمد اور اشرف علی وغیرہ،ان کے کفرمیں کوئی شبہہ نہیں، نہ شک کی مجال، بلکہ جو ان کے کفر میں شک کرے، بلکہ کسی طرح کسی حال میں انہیں کافر کہنے میں توقف کرے، اس کے کفر میں شبہہ نہیں“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد یازدہم:ص75 -رضا اکیڈمی ممبئ)

منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ قادیانی اور اشخاص اربعہ کے کفر کا انکارکرنا کفر ہے۔اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جس کو شبہہ ہوجائے،وہ کافرنہ مانے۔بلکہ یہ بتایا گیا کہ شبہہ یا شک کی گنجائش نہیں۔ شبہہ یاشک کے سبب بھی انکار کرے تو بھی حکم کفر ہوگا۔

قاضی عیاض مالکی قدس سرہ العزیز نے کفریہ اقوال کو نقل کرنے کے بعدرقم فرمایا:
(فَلَا شَکَّ فی کفر ہؤلاء الطوائف کلہا قطعًا اجماعًا وَسَمعًا- کذلک وقع الاجماع علٰی تکفیر کل مَن دَافَعَ نَصَّ الکتاب اَو خصَّ حدیثًا مجمعًا علٰی نقلہ مقطوعًا بہ مجمعًا علٰی حملہ علٰی ظاہرہ کتکفیر الخوارج بابطال الرجم-ولہٰذا نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ المسلمین من الملل اَو وَقَفَ فیہم او شَکَّ اَو صَحَّحَ مَذہَبَہم وان اظہر مع ذلک الاسلام واعتقدہ-واعتقد ابطال کل مذہب سواہ فہو کافرٌ باظہارہ مَا اَظہَرَ من خلاف ذلک)
(الشفاء:جلددوم:ص286-دارالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:اجماع متصل اور دلیل سمعی کے اعتبار سے ان تمام جماعتوں کے کفر میں قطعاً کوئی شک نہیں۔ اسی طرح اجماع متصل واقع ہے اس کے کفر پرجو نص کا انکار کرے، یا ایسی متواتر الروایت قطعی الدلالت حدیث کی تخصیص کرے،جس کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کرنے پر اجماع ہو،جیسے خوارج کی تکفیر رجم(زنا پر سنگساری کی سزا) کونہ ماننے کے سبب۔

پس ہم ایسے شخص کوکافر مانتے ہیں جس نے ملت اسلامیہ کے علاوہ کسی دین کواپنایا،یا خلاف اسلام مذہب اپنانے والوں کے(کفر) میں توقف کیا،یا شک کیا،یا ان کے مذہب کو صحیح کہا،، گر چہ وہ اسلام کا اظہار کرے،اور اسلام کا اعتقاد رکھے،اوراس کے علاوہ ہر مذہب کے باطل ہونے کا عقیدہ رکھے، پس وہ کافر ہے، اس لیے کہ اس نے ایسے امر کا اظہار کیا جواسلام کے خلاف ہے۔

تو ضیح:کتاب الشفا میں مذکورہ بالا عبارت سے قبل ان لوگوں کا ذکر ہے جو اسلام کے کلمہ خواں ہیں،لیکن کسی ضروری دینی کے منکر ہیں۔جس مذہب میں کسی ضروری دینی کا انکار ہو، اس مذہب کا حکم وہی ہے جوملت غیر اسلام کا حکم ہے،گرچہ اس مذہب میں اسلام کا کلمہ پڑھا جاتا ہو۔

اس کا سبب یہ ہے کہ ضروری دینی کے انکار کے سبب وہ کلمہ خواں مذہب بھی غیر کلمہ خواں مذہب کی طرح باطل ہے اور جس طر ح غیر کلمہ خواں مذہب کوقبول کرنے والے فردکو جو مومن مانے،وہ کافر ہے،اسی طرح ضروری دینی کے منکر کو جو مومن مانے، وہ بھی کافر ہے۔
دونوں کے درمیان علت مشترکہ ضروری دینی کا انکار ہے۔

مجوسی بھی ضروریات دین کا منکر ہے اور رافضی بھی متعدد ضروریات دین کا منکر ہے۔ایک ضروری دینی کے انکار پر بھی مذہب اسلام سے خروج ثابت ہوجاتا ہے،جس طرح متعددیاتمام ضروریات دین کے انکارکے سبب مذہب اسلام سے خروج ثابت ہوتا ہے۔

اسی طرح جو افراد واشخاص ضروریات دین کے منکر ہوں، ان کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ دین اسلام سے خارج ہیں، اور جو ان کومومن مانے، وہ بھی اسی طرح کافر ہے۔

قال الخفاجی:((ولہذا)ای للقول بکفر من خالف ظاہر النصوص والمجمع علیہ(نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ الاسلام)ای اتخذہ دینا (من)اہل(الملل)جمع ملۃ وہی الدین وبینہما فرق بحسب المفہوم(او وقف فیہم)ای توقف وتردد فی تکفیرہم(اوشک)فی کفرہم(اوصحح مذہبہم)ای اعتقد صحتہ کما تقدم عن بعضہم ان الایمان انما ہو عدم جحد وحدانیۃ اللّٰہ وقد تقدم بیانہ وابطالہ۔

والفرق بین التوقف والشک ان التوقف ان لا یمیل الی شئ من الطرفین-والشک مع التر جیح للمخالف(وان اظہر الاسلام)باعتقادہ والتزام احکامہ(واعتقدہ)بقلبہ(واعتقد ابطال کل مذہب سواہ)ای غیر الاسلام بان یقول انہ منسوخ باطل فی الواقع غیر مقبول عند اللّٰہ ولکن یزعم ان من اقر بالالوہیۃ والتوحید غیر کافر،کما تقدم من مذہب الجاحظ)(نسیم الریاض: جلدششم:ص359-دار الکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:منقولہ بالا عبارت میں اس امرکی وضاحت موجودہے کہ غیر ملت اسلام کے افراد کو کافر نہیں ماننے والا خود کافر ہے،کیوں کہ جو نصوص قطعیہ میں بیان کردہ عقائد اور مجمع علیہ عقائدیعنی ضروریات دین کا منکر ہے،وہ کافر ہے اورغیر ملت اسلام میں بھی ضروری دینی کا انکار ہے تو ان اہل مذاہب کوکافرنہیں ماننے والا کافر ہے۔

اسی طرح کلمہ خوانوں میں جو کسی ضروری دینی کا منکر ہو، اس کو کافر نہیں ماننے والا بھی کافر ہے۔دونوں کے درمیان علت مشترکہ ضروریات دین کا انکار ہے۔جس سے ضروری دینی کا انکار ہو، اس کوکافر نہیں ماننے والا خودکافر ہے۔ضروری دینی کے منکر کوکافر نہیں ماننے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ منکر تکفیر اس ضروری دینی کو ضروری دینی نہیں مانتا ہے۔ اگر اس ضروری دینی کو ضروری دینی مانتا تو ضروراس کے منکر کو کافرمانتا۔

شبہہ کے سبب حکم شرعی کے انکار کی گنجائش نہیں:

جب کسی کا کلام کفری معنی میں متعین ہو۔جہات ثلاثہ یعنی تکلم،متکلم اور کلام میں کوئی احتمال نہ ہو، تکفیر کے جملہ شرائط ولوازم کی تکمیل وتحقیق کے بعد کفر کلامی کا صحیح حکم نافذکیا جا چکا ہو تو اب نہ تاویل کے سبب انکارکی گنجائش ہے، نہ شبہہ کے سبب انکارکی گنجائش۔

(۱)حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے فتاویٰ رضویہ کا ایک فتویٰ نقل فرمایا:
”فتویٰ یہ ہے: منقول ازجلد یازدہم:فتاویٰ کلامیہ:صفحہ ۲۸۷
مسئلہ:ازسکندرآباد ضلع بلند شہر بازار مادھو داس
مرسلہ:نورمحمد:۳۲:ربیع الاول شریف۱۳ھ؁
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین:
مسئلہ ذیل میں جواب دے کر عند اللہ ماجور وعند الناس مشکور ہوں۔ ایک شخص حفظ الایمان وبراہین قاطعہ کی نسبت یہ تو کہتا ہے کہ بے شک اس میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح توہین اور گالی ہے، مگر پھر بھی تکفیر نہیں کرتا اوریہ کہتا ہے کہ ان کے مؤلف کی تکفیرکو پسند نہیں کرتا۔قابل گزارش یہ امر ہے کہ جب سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کوبھی کافرنہ کہا جائے تو کون کافر ہوگا،اور اس کافرکے کافر کہنے میں جوتأمل کرے گا، وہ خود کافرنہ ہوگا تو کس کافر کے کافر کہنے میں تأمل کرنے والا کافر ہوگا:بینوا توجروا

الجواب: صریح مقابل کنایہ ہے۔اسے ظہور کافی، نہ کہ احتمال کا نافی۔
محقق حیث اطلق نے فتح میں فرمایا:(ما غلب استعمالہ فی معنی بحیث یتبادر حقیقۃ اومجازا صریح-فان لم یستعمل فی غیرہ فاولی بالصراحۃ)
ہدایہ میں ارشاد ہوا: (انت طالق لا یفتقر الی النیۃ-لانہ صریح فیہ لغلبۃ الاستعمال-ولو نوی الطلاق عن وثاق لم یدین فی القضاء لانہ خلا ف الظاہر-ویدین فیما بینہ وبین اللّٰہ تعالٰی لانہ نوی ما یحتملہ)

بہت فقہائے کرام کے نزدیک تکفیر میں بھی اسی قدر کافی، ولہٰذا امثال اسماعیل دہلوی پر بحکم فقہائے کبار لزوم کفر میں شک نہیں جس کی تفصیل کوکبہ شہابیہ سے روشن۔
اور تحقیق اشتراط مفسر ہے۔ یہی مسلک متکلمین اور یہی مختار ومعتبر ہے۔

شخص مذکور کا قول مزبور اگر کسی ایسے کلام کی نسبت ہوتا کہ قسم اول سے تھا تو مشرب متکلمین پر محمول ہوتا، بشرطے کہ وہ ان جاہلان بے خرد کی طرح نہ ہوتا جن کومتبین ومتعین میں تمیز نہیں، مگر بد قسمتی سے اس کا قول براہین قاطعہ لما امراللہ بہ ان یوصل وخفض الایمان کے اقوال بدتر ازابوال کی نسبت ہے جو یقینا قسم دوم سے ہیں، جن کی نسبت علمائے کرام مکہ معظمہ ومدینہ منورہ حکم فرماچکے کہ:”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“جو ان کے کفر واستحقاق عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے، لہٰذا نہ اس کے کفر میں کوئی شبہہ حائل، نہ کسی ابلیس کی تلبیس چلنے کے قابل“۔(الموت الاحمر:ص 10-9-جامعۃ الرضا بریلی شریف)

حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے منقولہ بالا فتویٰ کی توضیح وتشریح ”الموت الاحمر“(بحث ثالث)میں رقم فرمادی ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب کلام کفر ی معنی میں مفسر اور متعین ہو،تب تکفیر کلامی ہوگی۔اگر کلام کفری معنی میں متبین ہوتو تکفیر فقہی ہوگی، تکفیر کلامی نہیں ہوگی۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے قول ((لہٰذا نہ اس کے کفر میں کوئی شبہہ حائل، نہ کسی ابلیس کی تلبیس چلنے کے قابل))کا مفہوم یہ ہے کہ تاویل یا کسی شبہہ کے سبب کافر کلامی کے کفر کاانکار کرنابھی کفر ہے۔ مفسر کلام میں احتمال یا شبہہ نہیں ہوتا۔ تاویل باطل اورشبہہ باطل کے سبب فتویٰ تکفیر کے انکار کی گنجائش نہیں۔بجنوری نے اسی تاویل باطل اور شبہہ باطل کو انکار کی دلیل سمجھ لیا اور 180:علمائے اہل سنت وجماعت نے اس کی تکفیرکی۔

اگر کسی کوکوئی شبہہ ہوجائے تو اہل علم سے اس کا جواب دریافت کرکے تشفی حاصل کر لے۔ حکم شرعی کے انکار کی اجازت نہیں۔ملحدین توحید ورسالت پر شبہات پیش کرتے ہیں۔ مومنین علما ئے کرام سے جواب معلوم کرتے ہیں۔توحیدورسالت کا انکار نہیں کرتے۔

(2)اشخاص اربعہ کی تکفیر کلامی سے متعلق اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
”یہاں چار مرحلے تھے۔
(1)جو کچھ ان دشنامیوں نے لکھا،چھا پا،ضروروہ اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین ودشنام تھا۔
(2)اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا کافر ہے۔
(3)جو انہیں کافر نہ کہے، جو ان کا پاس لحاظ کرے،جو ان کی استادی یارشتے یا دوستی کا خیال کرے،وہ انہیں میں سے ہے۔ انہیں کی طرح کافرہے۔ قیامت میں ان کے ساتھ ایک رسی میں باندھا جائے گا۔
(4)جو عذر مکر جہال وضلا ل یہاں بیان کرتے ہیں، سب باطل وناروا وپادر ہواہیں۔
یہ چاروں بحمد اللہ تعالیٰ بروجہ اعلیٰ واضح وروشن ہوگئے۔ جن کے ثبوت قرآن عظیم ہی کی آیات کریمہ نے دیے۔ اب ایک پہلو پر جنت وسعادت سرمدی۔دوسری طرف شقاوت وجہنم ابدی ہے۔ جسے جو پسند آئے،اختیار کرے، مگر اتنا سمجھ لو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن چھوڑ کر زیدوعمر وکا ساتھ دینے والا کبھی فلاح نہیں پائے گا۔باقی ہدایت رب العزت کے اختیار میں ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد30:تمہید ایمان:ص 358-357 -جامعہ نظامیہ لاہور)

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:(اب ایک پہلو پر جنت وسعادت سرمدی۔دوسری طرف شقاوت وجہنم ابدی ہے۔ جسے جو پسند آئے،اختیار کرے)یعنی جو اس حکم شرعی یعنی فتویٰ تکفیر کو نہ مانے،او ر اشخاص اربعہ کو مومن مانے، وہ اسی کی طرح جہنمی ہے۔جب کسی کو دین کے قطعی احکام میں شبہہ ہوجائے تو اس وقت کا اسلامی حکم یہ ہے کہ شبہہ دور کرے اور دین کے قطعی حکم کا انکار نہ کرے۔
مذکورہ بالا استفتا میں امام اہل سنت قدس سرہ العزیز سے شبہہ کا جواب دریافت کیا گیا، پس آپ نے شبہہ کا جواب رقم فرمادیا۔فتاویٰ رضویہ میں بھی مرقوم ہے:”شبہہ پیش کردۂ بعض اہل علم“۔ یعنی یہ شبہہ ہے۔ سائل کا اعتقادایسا نہیں ہے۔ وہ اس شبہہ کے سبب تکفیر تھانوی کا منکر نہیں، بلکہ استفتا میں شبہہ کا جواب دریافت کیا گیا ہے اور فتوی میں شبہ کے جواب پر اکتفا کیا گیا ہے:واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے