حضور حافظ ملت

حافظ ملت اور اصلاح فکر و عمل

ملت کا حافظ جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملت کی حفاظت میں گزرا، جس نے ملت کی حفاظت فرمائی تقریر سے تحریر سے، تدریس سے، مناظرہ کے ذریعے، احقاق حق اور ابطال باطل سے، اپنی زندگی کو اسوہء نبی میں ڈھال کر اپنی درس گاہ علم و ادب سے جلیل القدر علما اساتذه ، خطبا، اصحاب قلم، مناظرین، متکلمین، مفسرین، محد ثین اور اصحاب افتا پر مشتمل ٹیم تیار کر کے، خانقاہوں میں بیٹھ کر جامعہ اشرفیہ کے لیے زندگی وقف کر کے، خلاصہء کلام یہ کہ ملت کے حافظ نے ملت کی حفاظت کی ہر ان مؤثر ذرائع کو استعمال فرما کر جو ملت کی حفاظت کے لیے لازمی وسائل تھے۔ [ماہنامہ کنز الایمان، جولائی-۲۰۰۵ ص:٤٦)

یہ کلمات کسی اور کے نہیں بلکہ دور حاضر کی اس عبقری شخصیت کے ہیں جنھیں دنیا شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اشرف الجیلانی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے جنھوں نے حافظ ملت کے آغوش تعلیم تربیت میں اعدادیہ سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم مکمل کی ، جنھوں نے حافظ ملت کی صبح و شام کا مطالعہ کیا۔ اب ہم انھیں کی مذکورہ باتوں میں سے چند باتوں پر قدرے روشنی ڈالتے ہیں ۔

اصلاح فکر وعمل تقریر کے ذریعے :
حافظ ملت علیہ الرحمہ درس و تدریس سے پورے طور پر منسلک تھے لیکن تقریر و خطابت میں بھی ملکہ رکھتے تھے ، ان کی تقریر حکمت اور موعظت حسنہ سے بھر پور ہوا کرتی تھی ، سننے والا ان کی تقریر سے ضرور متاثر ہوتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کی بات دل سے نکلی تھی نہ
صرف زبان سے۔ آپ کی تقریر کی اثر انگریزی کا ایک واقعہ مولانا محمد علی فاروقی کی زبانی نذر قارئین ہے: ۱۹۷۳ء میں رائے پور ( چھتیس گڑھ ) میں عید میلادالنبی کے جلسے میں آپ تشریف لے گئے۔ جلسے میں پڑھے لکھے لوگوں کا خاصہ مجمع تھا، کئی غیر مسلم اسکالرز بھی تھے۔ آپ نے اسلام کی صداقت،
قرآن کی حقانیت اور قدیم وجدید علوم کے نفع و نقصان پر نہایت پر مغفر خطاب فرمایا۔ تقریر کے بعد سارا مجمع آپ کی دست بوسی کے لیے ٹوٹ پڑا۔ اس وقت کچھ غیر مسلم بھی کنارے کھڑے حضرت کا دیدار کر رہے تھے ۔ ان میں شری واستو جی نام کے ایک شخص بھی تھے۔ وہ غالباً کسی کالج کے پروفیسر تھے انھوں نے تنہائی میں جا کر مجھ ( مولانا محمد علی فاروقی ) سے پوچھا یہ جو آپ کے گرو جی ہیں، ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ تو مجھے ودیاساگر دکھائی دیتے ہیں۔ کیا ہم کو ان سے ملنے کے لیے وقت مل سکتا ہے؟ میں نے وقت اور پورا پتہ بتا دیا۔ شری واستو جی نے پہنچ کر حافظ ملت سے بہت سوالات کیے جن کو آپ نے نہایت متانت و سنجیدگی سے حل کر دیا۔ شری واستو جی اس سے بہت متاثر ہوئے اور فوراً آپ کے ہاتھوں پر توبہ کر کے دولت ایمان سے مالا مال ہو گئے ۔ ان کے ساتھی گنیش جی نے بھی اپنے گھر کے تمام افراد کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ حافظ ملت نے ان کا نام بلال اور شری واستو جی کا نور محمد رکھا۔
(حافظ ملت کا فیضان نظر ، ص: ۳۷ تا ۳۸.ملخصا)

اکثر لوگوں کی نماز فجر قضا ہو جاتی ہے اس سلسلے میں حافظ ملت نے کیا ہی خوب صورت انداز میں ایک جلسہ عام کو خطاب فرمایا: "ایک انسان جو کئی دنوں کا تھکا ماندہ ہو اور اس کو کسی اچھے کمرے میں سلا کر ساتھ ہی یہ پیغام سنا دو کہ یہاں ایک سانپ بھی رہتا ہے تو یقینی طور پر اسے سانپ کے خوف سے نیند نہیں آئے گی۔ جب سانپ کے خوف سے نیند اڑ سکتی ہے تو دل میں خوف خدا ہو اور نماز کے وقت نیند آجائے ، یہ عقل سے لگتی ہوئی بات نہیں-"
( حیات حافظ ملت ص:۲۳۱ ملخصاً)

سورہ لہب میں تعریف رسول
ایک مرتبہ مبارک پور میں دیوبندیوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں ان کے ایک مقرر نے سورہ لہب کی تلاوت کر کے اس پر تقریر کی اور کہا کہ پورا قرآن
حضور کی تعریف سے پر ہے، یہ بات غلط ہے ۔ بھلا بتاؤ کہ اس سورہ
میں کہاں حضور کا نام ہے اور اس میں حضور کی کون سی تعریف ہے؟ جس پر اہل سنت و جماعت کے لوگوں کو بڑا غصہ آیا۔ انہوں نے اس مقام پر دوسرے دن اپنا جلسہ رکھا جس میں حضرت حافظ ملت بحیثیت خطیب مدعو تھے ۔ حافظ ملت نے بھرے مجمع میں دیوبندیوں اور وہابیوں کو چیلنج کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ پورے مجمع سے کوئی بھی وہابی دیوبندی کھڑا ہو کر قرآن کی کسی آیت کی تلاوت کر دے جس میں اس کو میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تو ہین نظر آتی ہے۔ عبد العزیز اسی آیت کی روشنی میں دو گھنٹہ اپنے آقا و مولی کی تعریف و توصیف بیان کرے گا۔ بار بار یہ اعلان فرماتے رہے مگر پورے مجمع میں سے کوئی کھڑا نہ ہوا۔ تو خطبہء مسنونہ کے بعد سورہ لہب کی تلاوت فرما کر تقریر کا آغاز فرمایا اور سورہ لہب کی روشنی میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لعل و گوہر لٹاتے رہے۔ اس طرح سنیت کا بول بالا لا اور وہابیت کا منہ کالا ہوا۔

[سابق حوالہ ، ص ٤١٩، بحوالہ معارف حافظ ملت ص: ۳۲ ،۳۳)

غلطیوں پر ٹوکنا: کسی کو اس کی شرعی چوک پر اصلاح کی نیت سے تنبیہ کرنا امر بالمعروف کا ایک حصہ ہے۔ ایسے مواقع پر عوام تو اصلاح قبول کر لیا کرتے ہیں مگر خواص کو اصلاح کی نیت سے کچھ کہنا بڑا دشوار امر ہے۔ جب کہ خواص کو اس کا زیادہ حق پہنچتا ہے کہ اصلاح کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لیں تا کہ عوام ان کی پیروی کر کے راہ راست پر آسکے۔

حافظ ملت کی موجودگی میں ایک مقرر سے عقائد کے کسی مسئلے
کے بیان میں غلطی ہو گئی تھی ۔ حضرت حافظ ملت اپنے وقت پر جب کرسی پر تشریف فرما ہوئے تو خطبہ مسنونہ کے بعد تلاوت کر وہ آیت کی
تشریح کے بعد فرمایا: توبة السر بالسر وتوبة الاعلان بالاعلان -” آدمی سے اگر غلطی کا صدور خفیہ اور پوشیدگی میں ہو تو اس کی تو بہ بھی خفیہ اور پوشیدگی میں ہوگی اور اگر انسان سے غلطی کا صدور علانیہ ہو تو اس کی توبہ اعلانیہ ضروری ہے تا کہ علانیہ غلطی سے جو لوگ غلطی کا شکار ہو گئے ان کی اصلاح ہو جائے۔ اس کے بعد مقرر صاحب کے بیان کردہ مسئلہ کی غلطی کو واضح کر کے مسئلہ کی صحیح صورت سے آگاہ فرمایا اور کئی کتابوں کے حوالے سے مسئلہ کو مبرہن کر کے مقرر صاحب کو مائک پر آکر اپنے بیان کردہ مسئلہ سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔
(معارف حافظ ملت- ص: ٤٢)

مومن كامل: بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ کے دولت کده پر میلاد شریف کی محفل میں مولانا اسلم عزیزی کی ابتدائی تقریر ہوئی دوران تقریر مومن کامل بول گئے ۔ اس پر حافظ ملت نے اپنی تقریر میں ایمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان کامل اور ناقص نہیں ہوتا بلکہ کمال ، نقصان مومن کی صفت ہے۔
(معارف حافظ ملت – ص:٤٢)

باب علم میں غلطی ہو جانا نہ کوئی بڑی بات ہے اور نہ ہی کچھ عیب، البتہ غلطی پر مصر رہنا اور اصلاح قبول نہ کرنا بڑی غلطی ہے۔ نام ونمود اور شہرت کے خواہاں لوگوں کی طرف سے ایسے مواقع پر جو رد عمل دیکھا جاتا ہے اس کے پیش نظر اصلاح سے چشم پوشی میں عافیت محسوس کی جاتی ہے۔ اس خصوص میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کو دیکھا جائے تو آپ کی ذات ایک مثالی شخصیت کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہے۔
آپ اصلاح کے انجام سے مستغنی ہو کر بلا خوف لوم لائم مسئلہ بیان فرما دیتے۔ توبہ کی ترغیب بھی دلاتے ۔ خفیہ اور علانیہ ہو تو علانیہ تو بہ کی ترغیب دلاتے۔

وعدہ وفائی: ایک مرتبہ گورکھپور کے کسی جلسے میں مدعو تھےمگر عین تاریخ پر طبیعت اتنی علیل ہو گئی کہ سفر مشکل ہو گیا لیکن جذبہ صادق القولی کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب آپ بخار سے تپتے ہوئے بدن کے ساتھ شریک اجلاس ہوئے۔ حالانکہ لوگوں نے منع کیا، لیکن حافظ ملت پھر بھی نہ مانے۔ یہ حافظ ملت کی قومی ہم دردی تھی، آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں رک جانا چاہیے مگر میں نے وعدہ کر لیا ہے نہیں پہنچوں گا تو غریبوں کا دل ٹوٹ جائے گا۔ مذہب کا نقصان ہوگا ۔
( حافظ ملت افکار و کارنامے. ص: ۱۰۱)

ستر عورت ضروری ہے:
آپ جب کسی کو کوئی خلاف شرع کام کرتا دیکھتے تو فوراً اس کی اصلاح کی کوشش کرتے۔ جیسا کہ ایک بار کا واقعہ ہے: جمعہ کا دن تھا اور جامع مسجد راجہ مبارک شاہ میں نماز جمعہ کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا، استنجا کی جگہ کم تھی اور حاجت مندوں کی تعداد زیادہ ، نتیجہ یہ کہ دو آدمی استنجے کے لیے بیٹھے تھے اور متعدد اشخاص لوٹا لیے کھڑے انتظار میں تھے۔ طہارت کے لیے بیٹھنے والوں کی رانیں کھلی ہوئی تھیں، حافظ مات جن کے لیے جامع مسجد راجہ مبارک شاہ کا پر شکوہ منبر منتظر تھا، صدر دروازے سے داخل ہوئے اور اتفاقاً حضرت کی نگاہ گھٹنا” کھولے استنجا کرتے شخص پر پڑ گئی۔ مسجد میں پہنچ کر منبر سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور آدھا گھنٹہ تک غیظ و غضب میں ڈوبی ہوئی تقریر فرمائی۔ ستر پوشی سے متعلق” رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بے حیائی پر وعیدیں اور طہارت کے احکام و آداب آپ کی تقریر کا عنوان تھا۔”
(حیات حافظ ملت ، ص: ۵۳۰)

اصلاح فکر و عمل تحریر کے ذریعے: آپ نے اصلاح امت کی خاطر کتا بیں بھی تصنیف فرمائیں۔ اگر چہ کہ ان کتابوں کی تعداد بہت کم ہے۔ آپ کو بھی اس کا قلق ہمیشہ رہا۔ آپ آخری زمانے میں اظہار افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مجھے لوگوں نے کسی کام کا نہ رکھا۔ غیر اہم اور غیر ضروری کاموں میں مجھے ایسا الجھا دیا کہ لکھنے کا خاطر خواہ کام نہ ہو سکا جس کامجھے افسوس ہے ۔ حالانکہ اوائل عمر میں میرا قلم نہایت برق رفتار تھا اور اب نہ وہ قوت دماغ ہے اور نہ ہی فرصت ۔ اس لیے اب میں میرامطمح نظر اور میری زندگی کا مقصد صرف اور صرف "جامعہ اشرفیہ کی تکمیل ہے۔“
(ماہنامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر- ص:٤١٢)

چند کتابوں کے تعارف اور ان کے نمونے درج ذیل ہیں:

ارشاد القرآن: آپ نے یہ رسالہ ۱٩٤٧ء کے ہنگامہ ترک وطن کے وقت تحریر فرمایا جب مسلمانان ہند بغیر سوچے سمجھے ترک وطن کر کے نوزائیدہ پڑوسی ملک پاکستان جارہے تھے، بر وقت آپ نے یہ رسالہ شائع کی اور مفت تقسیم کرا کے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی. جس کے جلوے آپ بھی دیکھتے چلیں : "مسلمانوں تمھاری ہوا کا رخ وہی گنبد خضری ہے۔ تمہارا مقصود وہی تا جدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں، تمھاری مشکلات کا حل انھیں کی نظر کرم اور اشارہ ابرو پر موقوف ہے، تمہارے مقاصد کا حصول انہیں کی تعلیم پرعمل ہے جس کو مسلمان اپنی بدنصیبی سے فراموش کر چکے ہیں یں۔
(ارشاد القرآن- ص: ۵)

آپ قوم مسلم کی بدحالی اور ان کی بد اعمالیوں کو دیکھ کر تڑپ جاتے اور حتی الامکان ان کی اصلاح کی کوشش فرماتے ۔ چنانچہ آپ کے درد دل اور سوز دروں کا اندازہ اس تحریر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: "مسلمانوں! جاگو اور خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ تمہاری صلاح و فلاح اس میں مضمر ہے کہ سچے اور پکے مسلمان بن جاؤ تمہاری کامیابی اس پر موقوف ہے کہ تمہاری زندگی اسلامی اور موت اسلامی موت ہو۔ تمہاری صورت اسلامی صورت اور سیرت اسلامی سیرت ہو۔ تمہارا ظاہر بھی اسلامی اور باطن بھی اسلامی ہو، تمہارے عقائد بھی اسلام ہوں اور اعمال بھی اسلامی تمہارے جذبات اسلامی جذبات ہوں اور تمہارے خیالات اسلامی خیالات تمہارا سینہ اسلامی، ایمانی انوار سے منور ہو اور تمہارا جسم اعمال صالحہ سے مزین ، مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر تمہاری عادت ہو، اللہ عز و جل پر توکل و اعتماد تمہاری سرشت ہو، قرآنی تعلیمات پر عمل تمہاری طبیعت ثانیہ بن جائے ۔“
(ارشاد القرآن. ص: ۹)

ارشاد القرآن کا عام مسلمانوں پر جو اثر ہوا اس کے متعلق علامہ بدر القادری فرماتے ہیں ۱۹٤٧ء کے ہنگامہ ترک وطن میں مبارک پور میں ارشاد القرآن مفت تقسیم کی گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بھی مسلمان نے ترک وطن نہ کیا۔ یہ تھا خلوص اور دینی وملی درد میں ڈوبی ہوئی تحریر کا اثر. (حیات حافظ ملت. ص: ٤٣٣)

معارف حدیث: یہ اصل میں سلسلہ وار مضامین حدیث کا مجموعہ ہے جو ماہ نامہ پاسبان الہ آباد میں چھپتے رہے جس میں احادیث کی روشنی میں اعمال صالحہ اور عقائد حقہ کی تلقین کی گئی ہے۔ خطیب مشرق حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں: "کہ سمندر کوزے میں بھرنے کی کہاوت سنتے تھے لیکن معارف حدیث اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ حدیث کے ترجمے کے ساتھ اس پر عالمانہ و عارفانہ نکتہ آفرینی، یہ صرف استاذ العلماء جیسی بلند شخصیت کا کام ہے۔ (حیات حافظ ملت. ص: ٤٣٤)

اس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:

عقیدہ اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تعلق سے حدیث ربیعہ رضی اللہ عنہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ جو چاہو مانگو، دنیا کی خوبیاں مانگو، چاہے آخرت کی بھلائیاں مانگو، چاہے دونوں جہان کی نعمتیں مانگو، جو مانگو گے پاؤ گے۔
یہ کون کہہ سکتا ہے؟ یہ وہی کہہ سکتا ہے جو دنیا و آخرت کا مالک ہو.
حضور کے ارشاد سے آپ کا مالک و مختار ہونا ثابت ہوا اور اس درجہ کمال پر کہ دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں ، ساری دولتیں حضور کے
تصرف اور زیر فرمان ہیں۔
(معارف حدیث. ص: ۲۹)

آگے لکھتے ہیں:
حضرت ربیعہ کے اس سوال سے ان کا عقیدہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ربیعہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ساری کائنات کا مالک جانتے ہیں.
(ایضاً. ص: ۳۰)

اس کے علاوہ آپ نے انباء الغیب ،فرقہ ناجیہ، المصباح الحديد، العذاب الشديد لصاحب مقامع الحديد، الارشاد، فتاوی حافظ ملت جیسی اہم کتابیں لکھ کر عقائد و اعمال کی اصلاح فرمائیں۔

تدریس کے ذریعے اصلاح فکر و عمل:

حضرت حافظ ملت نے اپنی پوری زندگی خدمت دین میں وقف کر دی تھی خصوصاً درس و تدریس سے ہمیشہ رشتہ قائم رہا۔ جامعہ میں ہوں یا کہیں سفر سے آرہے ہوں ہرحال میں یکساں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ مرض کی حالت میں بھی تدریسی
سلسلہ بند نہیں کیا اور طالبان علوم نبویہ کو سیراب کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جس دن آپ کا وصال ہوا اُس دن بھی طلبہ کو بخاری شریف کا درس دیا۔ اس طرح زندگی کے آخری دن تک آپ طلبہ کی عملی و فکری طور پر ذہنی آب یاری فرماتے رہے۔

ہر حال میں یکساں درس و تدریس:
سفرسے واپسی ہو یا حضر، پریشانیوں اور الجھنوں کا سامنا ہو یا راحت وسکون کی سانس کسی بھی حال میں حافظ ملت کے انداز تدریس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا۔ کسی بھی سفر سے واپسی کے وقت تعلیم کا کچھ بھی وقت باقی رہتا تو دار العلوم تشریف پلاتے۔ درس گاہ میں پہنچنے سے پہلے ہی کسی طالب علم سے فرما دیتے فلاں جماعت کو بھیج دو۔ وہ جماعت پہنچتی ، عبارت پڑھواتے ، گذشتہ سبق سے موجود سبق کا ربط بیان فرما کر عبارت کی تشریح اور مقصود عبارت کو اس طرح بیان فرماتے کہ ایام قیام کی تفہیم و تشریح کے انداز سے سر مو فرق نہیں ہوتا جب کہ سفر کے تکان سے بوجھل ہونا ایک لازمی امر ہے۔

طلبہ کو نصیحتیں: آپ درس گا ہی نصیحتوں کےعلاوہ التزام کے ساتھ سال میں دو تین بار اساتذۂ اشرفیہ کی موجودگی میں تمام طلبہ کو مفید نصیحتوں سے نوازتے ۔ (معارف حافظ ملت. ص:٤٦)

حقوق کی ادائے گی:
دنیا میں انسان کے ساتھ جو حقوق متعلق ہیں انہیں دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے: (١) حقوق اللہ (۲) حقوق العباد.
حقوق العباد میں والدین کے حقوق، بیوی کے حقوق استاذ و شاگرد کے حقوق، پڑوس اور متعلقین کے حقوق، بڑے اور چھوٹے کے حقوق۔

حقوق اللہ: جو شب وروز انسانوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ ان کی ادائے گی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائے گی انتہائی مشکل امر ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ ایک صوفی آدمی دنیوی تمام حقوق کو بالائے طاق رکھ کر صرف یاد خدا میں مشغول ہو جاتا ہے۔ دنیا داروں کی بات ہی کیا جو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کو بھی پامال کرتے رہتے ہیں مگر حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ذات گرامی حقوق اللہ کی کامل ادائے گی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائے گی میں بھی یکتا و منفرد تھی۔ خود بھی حقوق العباد بجا لاتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے۔

ادائے گی حقوق کی تاکید:
قاری عبدالحکیم گونڈوی
کا بیان ہے : ایک بار محرم کی تعطیل میں گھر جانے کا ارادہ نہیں تھا، حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا قاری صاحب آپ گھر جائیں گے یا نہیں؟ عرض کیا حضور ارادہ نہیں ہے۔ حافظ ملت نے فرمایا پانچ ، چھ روز کی چھٹی ہو رہی ہے آپ گھر چلے جائیں۔ بچوں
کے بھی حقوق ہیں۔
(معارف حافظ ملت – ص: ۱١٦)

خواب میں تبلیغ دین: ایک شخص کا واقعہ ہے کہ میں نو عمری میں نماز کے ساتھ کچھ وظائف کا بھی پابند تھا۔ دوستوں کے اصرار پر ایک بار تروایح کے بعد سنیما دیکھنے چلا گیا۔ واپسی کے بعد سویا تو خواب میں دو آدمی میرے پاس آئے اور کہا تم کو فلاں جگہ بلایا جا رہا ہے دونوں مجھ کو لے کر ایسی جگہ پہنچے کہ وہاں سے تاحد نگاہ کانٹوں کا جنگل تھا، اشارہ کرتے ہوئے وہ دونوں بولے کہ اس مکان میں جاؤ۔
یہ کہہ کر اتنا زور سے دھکا دیا کہ میں گرتے پڑتے اس مکان کے اندر پہنچ گیا۔ کمرے میں ایک بزرگ تشریف فرما تھے۔ سر نیچے کیے ہوئے ہاتھ کی چھڑی سے دیوار کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا وظیفہ کا اثر یہی ہے، میں نے دیوار کی طرف دیکھا تو سینیما کی تصویریں نظر آئیں، اب وہ چھڑی سے مجھ کو مارنے لگے۔ میں مار کھانے والوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتارہا۔ نیند کھلی تو دیکھا کہ بستر اس طرح سمٹا ہوا ہے جس طرح میں مار کھانے میں ادھر ادھر ہوتا رہا تھا۔

ایک مدت کے بعد ایک جلسے میں پہنچا اور حافظ ملت پر نظر پڑی تو خواب کا سارا منظر سامنے آگیا۔ جلسہ کے بعد تنہائی میں اپنا خواب بیان کر کے داخلہ سلسلہ ہونے کی درخواست کی اور آپ کا مرید و مطیع ہو گیا۔
(معارف حافظ ملت. ص: ۱۰۹)

نماز میں یکسوائی: مبارک پور کے رہنے والے ایک حاجی صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے حضور نماز میں خیالات بٹتے رہتے ہیں۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ نماز میں
یکسوئی رہے مگر نہیں ہو پاتا، ارشاد فرمایا: "حاجی صاحب جو کچھ نماز میں پڑھیے اپنے کان سے پڑھنے کی آواز سنتے رہیے. حاجی صاحب پھر کسی دوسرے موقع پر حاضر ہوئے اور عرض کیا! حضور کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا ، اب نماز میں یکسوئی رہتی ہے اور خیالات بٹتے نہیں ہیں۔
(ایضاً. ص: ۱۱۵)

اصلاح فکر وعمل ملفوظات حافظ ملت کی روشنی میں
جنہوں نے حافظ ملت کی صحبت اختیار کی ہے انہیں خوب معلوم ہے کہ وہ کس قدر خاموش طبع تھے۔ جب کبھی بولتے تو نپی تلی بات بولتے ۔ آپ کے چند اقوال زریں پیش کیے جاتے ہیں
جو بڑے بامعنی اور زندگی میں انقلاب برپا کرنے والے ہیں:
(١) زندگی نام ہے کام کا اور بے کاری موت ہے (۲) زمین کے اوپر کام زمیں کے نیچے آرام (۳) میرے نزدیک ہر مخالفت کا جواب کام ہے (٤) تضیع اوقات سب سے بڑی محرومی ہے۔ (۵) احساس ذمہ داری سب سے قیمتی سرمایہ ہے (٦) کام کے آدمی بنو کام ہی آدمی کو معزز بناتا ہے۔ (۷) خدا سے ڈرنے والے والا کسی سے نہیں ڈرتا (۸) اتفاق زندگی ہے، اختلاف موت (۹) کام دنیا کا ہو یا دین کا صحت پر موقوف ہے (۱۰) کامیاب طالب علم وہ ہے جو استاذ سے علم کے ساتھ عمل بھی سیکھتا ہے (١١) زندگی وہ ہے جو کسی دوسرے کے کام آسکے (۱۳) تو کل ہی تو کل ہے۔ (حیات حافظ ملت. ص:٧٦٦،،٧٦٧،٧٦٨)
☆☆☆

از قلم: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی [ڈائریکٹر:مجلس علماے جھارکھنڈ و الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ] 7007591756

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے