تعلیم سیاست و حالات حاضرہ

جو علم کا دشمن ہے وہ ملک کا کیا ہوگا

تحریر: زین العابدین ندوی
سنت کبیر نگر

اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو جو چاہے کرلے، جیسی زندگی جینا چاہے جی لے اور اپنی ہر جائز نا جائز تمنائیں پوری کر لے، یہ سب کچھ کر سکتا ہے لیکن یہ ایک سچائی ہے کہ وہ علم کے بغیر انسان نہیں بن سکتا اور نہ ہی انسانیت کا حق ادا کر سکتا ہے، علم وہ جوہر ہے جس کی بدولت انسان عزت نفس اور احترام انسانیت کے ہنر سے لیس ہوتا ہے اور پھر اس کے اثر سے ایک ایسا گلستان حیات تیار ہوتا ہے جہاں ہر نو وارد دلی سکون اور قلبی اطمینان محسوس کرتے ہوئےصحیح معنی حقیقت حیات کا ادراک کرتا ہے۔

ہمارے ملک عزیز بھارت میں ہر دور میں ایک تعداد ان عبقری شخصیات کی رہی ہے جنہوں نے خود کو اس عظیم دولت سے مالا مال کیا اور پھر نو نہالان وطن کے مستقبل کی فکر میں سرگرم عمل رہے، وطن اور اہالیان وطن کی ترقی ان کی زندگی کا نصب العین بن گیا، قوم و ملت کے فلاح وبہبود کی خاطر بڑے سے بڑے خطرات کا سامنا کرنا، اس راستہ میں پیش آنے والی تمام تر دشواریوں کے مقابل ثبات کا ثبوت دینا ان کی زندگیوں کا شیوہ بن گیا، جگر کا خون دے دے کر انہوں نے گلشن ہند میں علم کی شجر کاری و آبیاری کی اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، انہیں جیالوں اور علم کے علمبرداروں میں ایک نام اعظم خان صاحب کا بھی ہے جنہوں نے اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی نامی ایک علمی درخت لگایا اور ملک کو ترقی کی راہ دینے کی بہترین سبیل نکالی، ہم ان کی اس جرات و ہمت عزم و حوصلہ کو سلام کرتے ہیں۔

ایک طرف جہاں اس ملک کو ترقی کی راہ پر لانے والے، گلشن ہند کو رنگ برنگ کے پھولوں سے سجانے والے اور اس کی پیشانی کو فخر سے بلند کرنے والے افراد ملتے رہے تو وہیں دوسری جانب اس بسے بساے چمن کو ویران کرنے والے، ملک کا مقدر تباہ کرنے والے اور اس کی بلند جبین کو آلودہ و داغدار کرنے والے آستین میں خنجر چھپائے ہوئے ملک دشمن اور علم دشمن عناصر بھی جنم لیتے رہے، جنہوں نے ہر شمع ترقی کو بجھانا اپنا فرض منصبی سمجھا اور ایک زمانہ سے اس پر عمل پیرا ہیں، اعظم خان صاحب کی بنائی ہوئی عظیم تعلیم گاہ بھی جن کی آنکھوں کا کانٹا بنی ہوئی ہے، ان کے ناپاک ارادوں سے پورا ملک واقف ہے، جب جب کسی نے ملک کو مثبت رخ دینے کی کوشش کی اس تعلیم دشمن عنصر نے اس کا خاتمہ کرنے کی تمام تدابیر اپنا ڈالیں، گوتم بودھ سے کون واقف نہیں، بھارت ان کا وطن تھا یہیں ان کا دھرم پیدا ہوا جب انہوں نے ان کے ماننے والوں نے ظالمانہ برہمنیت کے خلاف آواز بلند کی اور تعلیم کی شمع جلائی تو اسی گندی فکر کے حاملین تعلیم دشمن عنصر نے نالندا یونیورسٹی میں آتش زنی کی ، لائیبریری جلا ڈالی اور تمام حدیں پار کر دیں، اور آج وہی گھناؤنا کھیل مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے ساتھ بھی کھلینے کا منصوبہ ہے، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برسر اقتدار افراد جب علم دشمنی میں اتنا بڑھ سکتے ہیں تو دیش کی فکر وہ کیوں کر کریں گے جبکہ کسی بھی دیش کے بہتر ہونے کے لئے تعلیم کا ہونا ضروری ہے، یہ حرکتیں صاف بتاتی ہیں کہ ملک کو ویران کرنا ان کا سپنہ ہے۔۔۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو پھر ذمہ دار کون ہوگا؟؟؟؟ صرف ہم۔۔۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے