از: فارح مظفرپوری
میرے اللّٰہ مجھے اتنی سی توفیق ملے
نعت گوئی کے لیے ذہن کو تدقیق ملے
درمیاں کاذب و صادق میں یہ تفریق ملے
کذب کو کذب ملے صدق کو صدیق ملے
گر ہو مقصود تجھے جان جہاں کی مدحت
اے قلم! بچنا ، جہاں فقرۂِ تفسیق ملے
ہم تو واقف نہیں الفاظ ومعانی سے ، مگر
نعت کہنے کی خدایا ہمیں توفیق ملے
خوش بیانی سے کیےجاؤں ترا وصف بیان
فہم و ادراک کو سرکار وہ تشویق ملے
بہر حسنین ، علی ، فاطمہ زہرا آقا
جام کوثر کا ترے ہاتھوں سے اِبریق ملے
رب تعالٰی کا ہے احسان کہ بچ ہی نکلا
عشق کی راہوں میں کتنے مجھے زندیق ملے
ہم رقم کرتے چلے جائیں گے لوح دل پر
عشق کیاچیز ہے؟ اس کی کبھی تحقیق ملے
قلب صادق سے کیے جانا ہے بس ورد درود
اذن طیبہ کی کبھی خواب کو تصدیق ملے
بخت پر نازاں رہوں جتنا زیادہ، کم ہے
حاضریِ در اقدس کی جو توثیق ملے
نور والے مری تسکین کا باعث ہوگا
میری نظروں کو ابھی موقع ِ تحدیق ملے
بُن کر الفاظ محبت کے کہوں گا نعتیں
در اقدس پہ مجھے ساعتِ تلفیق ملے
گنبد خضری تصور میں تو رکھنا فارح
تاکہ افکار کو مداحی سے تطبیق ملے