از: ازؔہرالقادؔری
جامعہ اہل سنت امدادالعلوم مٹہنا کھنڈسری
سدھارتھ نگر یوپی
یہ ہے زمیں ہماری یہ آسماں ہمارا
چین و سکوں ہے اِس میں امن و اماں ہمارا
اِقباؔل کا ہے مصرع وِردِ زباں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اِس کی یہ گلستاں ہمارا
خاکِ وطن کی الفت مچلی ہے تن بدن میں
حُبِّ وطن کی خوشبو ایسی ہے فکر و فن میں
اِقبال کہتے ہوں گے یہ آج بھی کفن میں
غربت میں ہوں اگرہم رہتاہےدل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
اہل جہاں کو منظر دکھلایا آسماں کا
رشتہ زمیں سے کیا ہے بتلایا آسماں کا
سر پر ہمارے جھنڈا لہرایا آسماں کا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایا آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
پیغام دے رہا ہے وہ امن کا اماں کا
ناموس ہے یقینا بھارت کے آشیاں کا
اقبالیات میں ہے یہ فیصلہ جہاں کا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آ سماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
ہر موڑ پر سنبھل کر ہر ایک پیر رکھنا
ہر ایک سے تعلق لالچ بغیر رکھنا
اہل وطن کی خاطر اعمال خیر رکھنا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم ، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
بدخواہ ، کینہ پرور ، سب نفس کے پجاری
در پردہ کر رہے ہیں آپس میں مارا ماری
پہلےبھی ڈرتھا ہم سےاب بھی ہے خوف طاری
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دَورِ زماں ہمارا
معلوم ہو چلا ہے تاریخ کی زباں سے
اِحساس کچھ نہیں ہے پہونچے کہاں کہاں سے
آواز آرہی ہے گھر گھر مکاں مکاں سے
یوناؔن و مؔصر و روؔما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
ہر دَور چاہتا تھا دیکھے وہ شاد تجھ کو
ہر شخص کہہ رہا تھا مَن کی مراد تجھ کو
کیوں کر بھلا کہیں ہم اب خیر آباد تجھ کو
اے آب رودِ گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مہکی ہوئی فضا ہے روشن ہیں اِس کی گلیاں
اِس میں ہیں پیڑ، پودے ،پھل، پھول، غنچے،کلیاں
گزرے کئی زمانے گزریں بہت سی صدیاں
گودی میں کھیلتی ہیں اِس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جِناں ہمارا
ازؔہر ! نظر نہ آیا بازارِ کہکشاں میں
حور و ملک فلک میں درہائے اِنس وجاں میں
دیکھا نہ اِس زمیں پر پایا نہ آسماں میں
اِقباؔل کوئی مَحرَم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دَرد ِ نہاں ہمارا