سلطان صلاح الدین ایوبی (یوسف بن نجم الدین ایوب) اسلامی تاریخ کا وہ نادرونایاب ستارہ اور گوہر بے بہا ہے جس کی جاں بازی اور بہادری کی داستان نہ صرف مسلمانوں کو زبان زد ہے بلکہ دیگر قومیں بھی انہیں قدر کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ جس کے گھوڑوں کی ٹاپ آج بھی مسیحیوں کے کانوں میں گونج کر بیقرار کرتی ہے تو دوسری جانب اسکی رحم دلی اور سخاوت کی چھاپ مسیحیوں کے دلوں پر آج بھی نقش ہے۔
سن1183ء میں عراق کے شہر ”تکریت“ میں پیدا ہونے والے اس مرد مجاہد کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر،شام،یمن،عراق،حجاز اور دیار باکر پہ 1173ء سے 1193ء تک تقریبا بیس سالہ شاندار حکومت کی۔
شجاعت و جواں مردی اور حکمرانی تدبر وتفکر کے ساتھ انہوں نے حسن اخلاق اور فیاضی کا دامن کبھی نہ چھوڑا بلکہ تا حین حیات خوش اخلاقی اور بردباری کے علم بردار بنے رہے۔ تقوی وطہارت کا حال یہ تھا کہ نماز کبھی ترک نہ کی حتی کہ میدان جنگ میں ن بھی جماعت کی پابندی۔ اور متاع دنیا سے قطع تعلق کا یہ عالم تھا کہ اتنی وسیع وعریض خطے کے حاکم ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنے لئے محل کی تعمیر نہ کی بلکہ پوری زندگی سپاہیوں کے ساتھ خیمے میں گزار دی۔
سن 1186ء میں رینالڈکی زیر قیادت مسیحیوں کا ایک عظیم لشکر مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز کی طرف روانہ ہوا تو سلطان ایوبی نے مقام حطین میں اس لشکر کی سرکوبی کی اور1187ء میں تاریخ کا خوفناک ترین جنگ ہوا جس میں سلطان ایوبی کی دانائی نے مسیحیوں کے چھکے چھڑا دئے اور تیس ہزار مسیحی مارے گئے اور تیس ہزار قید کر لئے گئے، اور رینالڈکو مدینہ منورہ پہ حملہ کی ناکام کوشش اور نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کے جرم عظیم میں سلطان ایوبی نے خود اپنے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچا دیا۔
اسی سال سلطان ایوبی نے تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا جسے رہتی دنیا تک فراموش کر پانا ناممکن ہے۔ یعنی مسلمانوں کے قبلہ اول ”بیت المقدس“ کو پورے 88سالوں بعد مسیحیوں کے قبضے سے آزاد کرایا۔ بیت المقدس کے ساتھ یروشلم فتح کرڈالا۔ اور جلد ہی پورا فلسطین مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔بیت المقدس فتح کرنے کے بعد ”فاتح بیت المقدس“نے جب اس پاکیزہ مسجد میں قدم رکھا تو پوری دنیا دنگ رہ گئی اور مذہب اسلام کی اصل ہتھیار یعنی اخلاق وکردار کی دوبارہ قائل ہوگئی جب سلطان ایوبی اور ان کے بھائی ملک عادل نے غریب ونادار عیسائیوں کا فدیہ خود اپنی جیب سے ادا کیا۔
بیت المقدس1948ء تک مسلسل 671سال مسلمانوں کے قبضہ میں رہا اور دنیا کے ہر گوشہ سے زائرین اس پاکیزہ گھر کی زیارت کے لیے آتے رہے مگر1948ء میں امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ سازش سے فلسطین پر یہودی حکومت قائم ہوئی اور نصف بیت المقدس پر اسرائیلیوں کا قبضہ ہوگیا، اور1976ء کی عرب-اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر یہودیوں کا مکمل قبضہ ہوگیا۔ تب سے آج تک گزشتہ 52سالوں میں اسرائیلیوں نے بیت المقدس اور فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم، تشدد وبربریت کے وہ پہاڑ توڑے کہ جنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔گزشتہ نصف صدی فلسطینی مسلمان اس مرد مجاہد کی راہ دیکھ رہے ہیں جو انہیں اسرائیلی جبر وتشدد کے کھوہ عمیق سے نجات دلاے اور بیت المقدس کی حفاظت کرے مگر
پچھلے 52 سالوں سے یہ سوال آج بھی بدستور قائم ہے کہ مسلمانوں میں اب کوئی دوسرا صلاح الدین ایوبی کیوں نہیں پیداہوتا؟کوئی مسلمان اپنے قبلہ اول’بیت المقدس‘ کی حفاظت کے لیے آگے کیوں نہیں آتا؟ کیوں اس مقدس گھر کو اسرائلیوں کے ناپاک قدموں سے پاک نہیں کرتا؟ کیا مسلم آنکھیں فلسطینی مسلمانوں پر ہو رہی زیادتیوں کو نظراندازکر رہی ہیں یا دیکھنے کی تاب نہیں رکھتیں؟ یا پھر قوم مسلم درس ”کل مومن اخوۃ“بھول کر فلسطینی بھائیوں کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں فنا ہوتے دیکھ لطف اندوز ہورہی ہے؟
کیوں کسی مسلمان میں ایوبی جرأت پیدا نہیں ہوتی؟ کیوں کسی مسلم نوجوان کے بازوؤں میں ایوبی قوت نہیں سماتی؟ کیوں کسی مسلمان کی کلائی میں شمشیر ایوبی کے جوہر پیدا نہیں ہوتے؟
وجہ صاف اور واضح ہے:آج ہم نے اپنی تاریخ فراموش کردی اور فضول وباطل کہانیوں میں الجھ گئے۔ آج ہم نے مجاہدین اسلام کی داستانوں کا مطالعہ ترک کر دیا اور فحش لیٹریچر کتابوں، ناولوں کا مطالعہ شروع کردیا۔ آج ہمارے بڑے بالخصوص ہماری مائیں بچوں کو فرضی چاند تارے کی کہانیاں سنانے لگیں، انہیں فاتح بیت المقدس ایوبی، فاتح قسطنطنیہ محمد الفاتح، فاتح سندھ محمد بن قاسم جیسے بہادر سپاہیوں کی داستانیں یاد نہیں، آج ٹی۔وی۔ اور سنیما کی لعنت نے ہمارے بچوں کو ان جاں باز مسلم لڑاکوں کی سچی،اصلی اور حقیقی حکایتوں سے کوسوں دور کردیا۔ ہماری نئی اور آزاد خیال نسل تاریخ اسلامی کے ان دلیر سپاہیوں کامطالعہ کرنے کی بجاے لایعنی اور فضول کہانیوں میں منہمک نظر آرہی ہے۔ انکی مائنڈ پروگرامنگ(ذہن سازی) کچھ اس طرح کی جارہی ہے کہ صلاح الدین ایوبی جیسا اولوالعزم،جرأت مند اور شجاعت وبہادری میں یکتاے روزگار مرد مجاہدان کی نظروں میں ہیرو(Hero)نہ رہا۔ بلکہ انکے ہیرو تو فلمی دنیا کے ہیروز ”سوپرمین،بیٹ مین،سپائیڈر مین جیسے کارٹون کیرکٹرس(Cartoon Characters) ہوچکے ہیں جو محض تصوراتی اور باطل ہیں جن کا حقیقی دنیا میں کوئی وجود نہیں۔ ہماری نئی اور آزاد خیال نسل نے اسلامی ہیروز کی زندگی سے سبق لینے کی بجاے ویسٹرن کلچر(مغربی تہذیب وتمدن) سیکھنا شروع کردیا ہے اور یہی اصل وجہ ہے کہ اب تک کوئی دوسرا صلاح الدین ایوبی پیدا نہ ہوسکاکیونکہ
اپنی تاریخ جو قوم بھلا دیتی ہے
صفحہ ہستی سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے
لہذا آج مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ نئی نسلوں کو اسلامی تاریخ سے آگاہ کرائیں، انہیں فلمی دنیا کے خیالاتی،تصوراتی افسانوں اور جھوٹے ہیروز کی کہانیوں سے بچاکر ان کے دلوں میں اسلام کی وہی پرانی تاریخ راسخ کریں جس میں ہم تین سو تیرہ ہوکر ہزاروں کے مقابلے ڈٹے ہوئے تھے بلکہ انہیں شکست فاش دیا تھا، اور ہماری تلواروں کی چمک قیصر وکسری کو اندھا بنا دیتی تھی اور اسکی کھنک ظالموں کو بہرا ۔کیونکہ تھوڑا ہی سہی مگر آج بھی ہماری رگوں میں ایمانی خون گردش کر رہا ہے اور اسکی حرارت نے ہمارے بازوؤں کو مکمل خستہ اور کمزور ہونے سے باز رکھا ہے۔
بازوے مسلم خستہ ابھی کمزور نہیں
یہ جو اٹھ جائے تو اس سے کوئی شہ زور نہیں
آج بھی ہم افق دہر پہ چھا سکتے ہیں
ہم جو چاہیں تو تشددکو مٹا سکتے ہیں
ازقلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی