اعلیٰ حضرت

مشرکین کی سازشیں اور امام احمد رضا کی تاباں فکریں

انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی، وہ چاہتا تھا کہ مسلمان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لائق نہ رہیں۔ اس نے مسلمانوں کے مقابل ہندوؤں کی مدد کی؛ اس لیے مسلمان دونوں طرف سے سازش کا شکار تھے، ایسے میں تحریک آزادی کی آڑ میں مسلمانوں کی اسلامی شناخت ختم کرنے اور ایمان کو کم زور کرنے کے لیے ایک تحریک چلائی گئی اور ہندوؤں سے ایسے اتحاد و دِداد پر زور دیا گیا جس کے نتیجے میں شرکیہ مراسم مسلم سوسائٹی میں داخل ہونے لگے۔ ۱۹۲۰ء میں گاندھی کے ایما پر تحریک ترک موالات (Non Co-operation) چلائی گئی، کہ مسلمان انگریز کی مخالفت میں اپنی جائز ملازمتیں چھوڑ دیں۔ امام احمد رضا نے اس کی مخالفت کی؛ اس لیے کہ اسلامی شریعت سے یہ کام غلط تھا، ترک موالات کے نتیجے میں مسلمان معاشی و اقتصادی بد حالی و تنگی کا شکار ہوئے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں-
بہر حال امام احمد رضا اور ان کے محبین و تلامذہ نیز مسترشدین نے اس تحریک کی عملی طور پر مخالفت کی۔ علی گڑھ میں ترک موالات کی مخالفت میں ڈاکٹر ضیاء الدین (وائس چانسلر م۱۹۴۷ء) اور ان کے چند احباب سرگرم عمل رہے۔ اس تحریک کا طوفان مسلم یونی ورسٹی میں بھی داخل ہوا، سید نور محمد قادری لکھتے ہیں:

’’یہ تعلیمی ادارہ ڈاکٹر سر ضیاء الدین مرحوم، مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی اور مولانا سید سلیمان اشرف بہاری (م۱۹۳۵ء، شاگرد اعلیٰ حضرت) کی مساعی جمیلہ سے مکمل شکست و ریخت سے تو بچ گیا، لیکن اپنے دوستوں مثلاً مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد اور مولوی محمود حسن کے ہاتھوں اسے گہرے زخم لگے جو بڑی مدت کے بعد جا کر مندمل ہوئے۔‘‘ (تقدیم، المبین ص۲۶)

ڈاکٹر ضیاء الدین نے امام احمد رضا کی اسلامی فکر و شرعی فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ترک موالات کی مخالفت کی اور اپنے دانش مندانہ اقدام سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حامیانِ ترک موالات کی کم ظرفی پر علی گڑھ کے فارغ نواب مشتاق احمد خاں اپنا مشاہدہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’ان تین چار ہنگاموں کے بعد مسلمان یہ عام طور پر محسوس کرنے لگے کہ انھوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنا ہی نقصان کیا۔ علی گڑھ میں تعلیمی سال کی بربادی ہوئی، نظم و ضبط متاثر ہوا اور اس سارے دور میں بنارس ہندو یونی ورسٹی پر کوئی آنچ نہ آئی۔‘‘ (کاروانِ حیات لاہور ۱۹۷۴ء، ص۸۸)

آخرالذکر اقتباس سے مشرکین کی شاطرانہ ذہنیت کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ انگریز کے اصل دُشمن مسلمان تھے، مشرکین پر وہ حد درجہ مہربان تھے، مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی نے لکھا تھا:
’’ہندوؤں میں سے صرف وہ مارے گئے جن کے متعلق دُشمن و معاند ہونے کا یقین تھا… ادھر نصاریٰ نے ماتحت ہندو رؤسا کو پیغام بھیجا کہ جو شخص بھی (مسلمان) تمہارے علاقہ میں سے گزرے اسے پکڑ کیا جائے۔‘‘ (الثورۃ الہندیہ ص۵۱)

مسلمان آزادی کی لڑائی میں اگر خود کفیل ہوتے تو شاید آزادی کے بعد حکومت میں کچھ وقار ضرور حاصل کر لیتے لیکن ہوا یہ کہ مشرکین سے اتحاد نے مسلمانوں کو کہیں کا نہ چھوڑا، اس دور میں سماجی مصلح اور بے مثال سیاسی تدبر کے مالک امام احمد رضا قادری محدثِ بریلوی (م۱۹۲۱ء) نے مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ ساتھ مشرکوں سے بھی بچنے کی تلقین کی تھی کہ نہ انگریز تمہارے خیر خواہ ہیں نہ مشرک؛ اس بابت آپ کا معرکہ آرا مقالہ "المحجۃالمؤتمنۃفی آیۃالممتحنۃ” آج بھی نافع ہے؛ جس کے شرعی فیصلوں پر عمل کر کے موجودہ عہد میں مشرکین کی سازشوں سے ایمان و عقیدہ کی حفاظت موثر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔

ازقلم: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن، مالیگاؤں


تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے