تحریر: خلیل فیضانی
استاذ: دارالعلوم فیضان اشرف باسنی
ہرکوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے!
حیدری فقر ہے نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
آج کل درگاہیں اور خانقاہیں اپنے نفسانی ہوس کی تکمیل اور مادی مفاد کے حصول کی آماج گاہیں بنتی جارہی ہیں۔
بزرگوں کی روحانی وراثت کا جس غاصبانہ طریقے سے مس یوز -MISUSE- اور استحصال کیا جارہا ہے وہ دیکھتے ہی بنتا ہے ۔
پیری مریدی اور تصوف کے نام پر پیر صاحبان کے بنگلے،گاڑیاں،خدم وحشم اور خوشامدیوں کی بھیڑ میں سال بہ سال غیر معمولی اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
دولت کی اس فروانی اور دنیا کی اس جگمگاہٹ و عیش بازی کا ان پر اور ان کے صاحبزادگان پر سائڈ افیکٹس -side effects- یہ پڑا کہ وہ جذبۂ علم وعمل اور روحانی کیف وسرور سے یکسر کورے اور محروم ہوکر رہ گئے ۔
عملی طور پر ان کا رشتہ، تصوف وصوفیا سے یکسر کٹ کررہ گیا۔
سوز وگداز، علم وعمل ،کیف و سرور اور مجاہدات و احتسابات جو پہلے خانقاہیوں کی امتیازی شناخت ہوا کرتے تھے ،مرور زمان کے ساتھ اب وہ قصہ پارینہ سے بن چکے ہیں؛
نتیجہ یہ رہا کہ عیش وعشرت کی جگمگاتی دنیا میں مست مگن ہوکر اب یہ خانقاہی اپنی عاقبت کو داؤں پر لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور آۓ دن انتشار بین المسلمین کے سبب بنتے رہتے ہیں۔
"العوام کالانعام "اور معذرت کے ساتھ،لاشعوری طور پر بعض ہمارے وہ نادان دوست بھی ( کہ جنہیں مدارس کی ہوا تو لگی مگر علم وعمل اور تصوف وروحانیت کی حقیقتوں سے وہ ناآشنا رہے )
اس خبط کے شکار رہنے لگے ہیں کہ دین وسنت سے ہمارا کوئی عملی تعلق رہے ،نہ بھی رہے تب بھی ہمارے یہ پیر صاحبان یا پیر صاحبان کے صاحب زادگان ہماری آخرت کے معاملات سنبھال ہی لیں گے ؛بس شرط یہ ہے کہ ہم ان کی جائز و ناجائز تمناؤں کی تکمیل کرتے رہیں،
اپنی عقیدتوں کی جبیں ان کی چوکھٹ پر ملتے رہیں، اور ان کے ہر حکم پر ا صدقنا واطعناکہتے رہیں ۔
ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب خانقاہوں سے مجاہدین میدان تیار کیے جاتے تھے….انہیں جہاد بالنفس کی ٹریننگ- Training-, کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے بھی تیار کیا جاتا تھا…حضرت عبد اللہ ابن مبارک رضی اللہ تعالی عنہما وغیرہ کے مثالی کارنامے اس پر شاہد عدل ہیں-
بڑی معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہماری خانقاہوں میں وہ بات نہیں رہی جو ادوارِ اسلاف میں ہمیں نظر آتی تھی-
پہلے خانقاہ اس روحانی درس گاہ کا نام تھاہکہ جس میں داخل ہونے والا شخص اپنے قلب پژمردہ وفکر شوریدہ کو مزکی کرکے واپس لوٹتا تھا جب کہ آج جیب خالی کرکے واپس کبھی نا جانے کی قسم کھاکر الٹے پاؤں پلٹتا ہے-
غارت ہوں وہ ملت فروش کہ جنہوں نے اس مقدس امانت کے تقدس کو پامال کیا اور اسے اپنی دنیا کمانے کے لیے استعمال کیا….آج ہر طرف سکون کی تلاش ہے,لوگوں کو ہر چیز میسر ہے
گاڑی ہے… بنگلہ ہے…جائداد ہے مگر سکون ندارد…اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو شے منبع سکون تھی…. جہاں سے طمانیت وسکون کے سوتے پھوٹتے تھے… دین فروشوں نے ان منابع کو غلط مصارف میں جکڑ کر رکھ دیا..اب بھلا سکون کہاں سے حاصل ہو….-
خانقاہ ایک ولی ساز کارخانہ ہے…اور یہ وہ تقدس مآب مقام ہے جہاں سے شریعت و طریقت کی ضیائیں پھیلتی ہے…یہاں سے گم گشتگان راہ کو چشمۂ ہدایت نصیب ہوتا ہے…یہاں علم و عمل کی بزم سجتی ہے….اخلاص و وفا کے چراغ روشن ہوتے ہیں….غرض یہ کہ خانقاہ روحانیت و للہیت سے عبارت مقام کا نام تھا…مگر آج اسے غلط مصرف میں استعمال کیا جارہا ہے…الا ماشاء اللہ…-
آقاﷺ کی بعثت سے پہلے جس طرح یہود جہلاے قوم کو بےوقوف بنا کر آیات الہیہ کو فروخت کرکے اپنی دنیاداری چلاتے تھے بعینہ آج گدی نشینان خانقاہ اسی روش پر گامزن نظر آتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے ولی کی عقیدت میں پھانس کر ان سے پیسے ہڑپنے میں بلکل دریغ نہیں کرتے…یہ بے ایمانی و دنیا پرستی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
گدی نشیں حضرات اگر اصول شرع پر کار بند ہو تب تو مسئلہ ہی کوئی نہیں بنتا مگر میں جن تیرہ بختوں کے بارے میں بات کررہا ہوں ان کا حال یہ ہے کہ وہ اصول شرع کجا علم دین کے ابجد سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں….ایسے لوگ جب اتنی مقدس جگہوں پر قابض ہوجاتے ہیں تو ظاہر ہے ان مقامات مقدسہ کا مس یوز ہونا ہی ہے…-
ادوار سابقہ میں تصوف اور پیری مریدی نام تھا اپنے آپ کو کمر توڑ اور جاں گسل مشقتوں میں ڈالنے کا،ہر عامی کو مرید بھی نہیں بنایا جاتا تھا بلکہ بیس بیس سال کے سخت مجاہدات کے بعد جاکر کہیں اسے اپنے حلقۂ عقیدت میں لیا جاتا تھا۔
مگر آج تو حضور مہدی میاں کے قول کے مطابق:خلافت، کھجور اور مونگ فلی کی طرح بٹ رہی ہے بلکہ بک رہی ہے۔
یہ کلمات بغیر کسی روای کی روایت کے میں نے خود حضرت سے ایک ملاقات میں سماعت کیے۔
آج کل کے گدی نشینوں اور صاحب زادگان کا حال قابل صد افسوس ہے۔ بدقسمتی سے اسلاف کی امانتوں کے وہ لوگ امین بن گئے جنہیں اسلاف سے کچھ بھی نسبت نہیں رہی۔
بقول اقبال:تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
میاں شیر محمد شرقپوری رحمہ اللہ کسی پیر خانے تشریف لے گئے-وہاں پہنچے اور جب وہاں کے صاحب زادے کے کرتوت دیکھے تو بڑے کرب سے فرمانے لگے: اللہ تعالی مسلمان بناۓ صاحبزادہ نہ بناۓ
آج کے پیروں کے صاحب زادے بھی کچھ اسی روش پر گامزن ہیں
-الا ماشاء اللہ –
جاہل اور جذباتی مریدین پیر صاحب کے لخت جگر کو کسی ولی سے کم نہیں سمجھتے جب کہ ولایت اور صاحب زادگی میں کوئی تلازم نہیں ہے-۔
رب تعالی ایسوں کے مکائد سے ہمیں محفوظ فرماۓ اور اپنے اسلاف سے روحانی تعلقات استوار کرنے کی پاکیزہ توفیق دے-