ازقلم : پروفیسر ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)
قرآن کریم مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا حکم فرماتا ہے اور ہر اس کارروائی سے اجتناب کرنے کی تاکید و تلقین کرتا ہے جس سے امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر جاتا ہو۔ کیونکہ جس قوم میں اتحاد و اتفاق ہوتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور جو قوم انتشار و اختلاف کا شکار ہوجاتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز قائم کرلیتی ہے اسے دنیا حرف غلط کی طرح مٹاکے رکھ دیتی ہے۔ لہٰذا ایسے وقت جب امت مسلمہ پر اسلام دشمن طاقتیں چاروں طرف سے یلغار کررہی ہیں تاکہ امت مرحومہ کو فروعی اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ الجھائے رکھا جائے اور وہ مشترکہ دشمن کے خلاف متحد نہ ہوسکیں۔ ایسے عالم میں مسلمانوں کو ہر سطح پر ظلم و زیادتی سے بچانے کے لیے ہمیں منظم، فعال اور متحرک ہوکر ایسا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا جس سے آپس میں محبتیں اور الفتیں بڑھانے، دلوں سے کدروتیں دور کرنے، مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے، انتشار و اختلاف کا خاتمہ کرنے، معاشرے کو گل گلزار بنانے کی راہ ہموار ہوسکے جو کہ ہر مسلمان کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے جو میری راضا کی خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے ۔ انبیاء کرام اور شہداء ان پر رشک کریں گے۔کسی قوم کے عزت و وقار اور سربلندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا راز باہمی اتحاد و اتفاق اور باہمی حکمت عملی میں مضمر ہے۔ جس قوم میں پائیدار اتحاد پایا جاتا ہے وہ قوم تعداد میں کم ہونے کے باوجود باطل کے لشکر جرار کو شکست دینے کا حوصلہ اور عزم رکھتی ہے جیسا کہ جنگ بدر اور میدان کربلا میں مسلمانوں نے کردکھایا ہے۔ اور جب کی قوم کی بنیادیں انتشار و اختلاف کے باعث کمزور ہوجاتی ہیں تو وہ قوم عددی قوت رکھنے باوجود ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے جیسا کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کی زبوں حالی، کسمپرسی اور ناگفتہ بہ حالت زار سے عیاں ہے۔ جانوروں پر ظلم ہوتا ہے تو تنظیمیں اور ادارے سڑکوں پر اتر آتے ہیں، زبردست احتجاج درج کرواتے ہیں لیکن مسلمانوں کی عبادتگاہوں کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے، ان کا جانی و مالی نقصان کیا جاتا ہے، ان کو شریعت سے دور کرنے کی حکومتی سطح پر سازشیں رچی جاتی ہیں، ان کی خواتین کو مرتد بناکر عبرتناک انجام تک پہنچایا جاتاہے، ان کے ساتھ عصمت دری کرنے والوں کا استقبال کیا جاتا ہے ،انہیں تہنیت پیش کی جاتی ہے ، ان کے معصوم بچوں کو یتیم و یسیر بنایا جاتا ہے تو حقوق انسانی کی بات کرنے والی دنیا کی تمام تنظیموں اور اداروں پر سکوت طاری ہوجاتا ہے ایسے لگتا ہے کہ خوف سے ان کی زبانیں خشک ہوگئی ہیں اور انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج مسلمانوں کی حیثیت سے جانور سے بھی بدتر ہوچکی ہے چونکہ ہم اللہ کی وحدانیت، پیغمبر انسانیت، قرآن مجید اور قبلہ جیسے بنیادی مسائل پر متحد و متفق ہونے کے باوجود جزوی مسائل میں اختلاف کو فوقیت دے رہے ہیں ، آخرت پر دنیا کو ترجیح دے رہے ہیں اور خدائی احکامات اور نبوی ارشادات کے مقابل نفسانی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان فرمادیا ہے کہ جو لوگ اپنی صلاحیتوں و توانائیوں اور حواس و قوائے ادراکیہ کا استعمال صرف اور صرف خواہشات نفسانی کی تکمیل ، آسودہ مادی زندگی کے حصول اور دنیاوی لذات سے لطف اندوز ہونے کے لیے کرتے ہیں ایسے بے خبر غافلین اور حیوان نما انسان تو بے عقل چار پایوںسے بھی بدرجہا بدتر ہیں۔ چونکہ یہ عقل سلیم رکھنے کے باوجود حدود الٰہیہ کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے، آنکھوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے رہنے کی وجہ سے آخرت کے نفع و ضرر کو پہچاننے سے قاصر ہیں اور اس عظیم بدبختی کے چنکل سے آزاد ہونے کے لیے اللہ تعالی کی عطا کردہ عظیم و گراں قدر نعمت یعنی عقل کی اعلی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے جبکہ جانور بیدار فکر، چشم بینا اور عقل و شعور سے محروم ہونے کے باوجود محض شکم سیری کے لیے اپنے مالک کی خدمت گزاری سے کبھی اعراض نہیں کرتے چونکہ وہ اپنے نفع و ضرر کو پہنچانتے ہیں۔ قرآن مجید کے بیان کردہ جہنمی گروہ کے صفات کا شکار ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جو قرآن مجید کے روشن شواہد و دلائل کو دیکھنے ، دین اسلام کے پیغام حق کو سمجھنے،اور خدائی احکامات کی نافرمانی کرنے والوں پر ہونے والے عتاب و عذاب کے واقعات سننے کے باوجود اسلامی تعلیمات سے دیدہ و دانستہ انحراف کرتا ہے اور دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے ہمیشہ ہواپرستی کا شکار رہتا ہے جبکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ اس کی تخلیق خدا پرستش اور فرمانبرداری کے لیے ہوئی ہے۔ آج ہمارے پاس رسول مکرمؐ کا زندہ جاوید معجزہ قرآن مجید موجود ہے جو دستور حیات ہے اس کے باوجود ہم بے راہ روی کا شکار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا پرستی ،نفس پرستی اور گناہوں کی نحوست کے باعث توفیق ِ یزدانی اور عنایت ربانی کی دستگیری سے محروم ہوچکے ہیں۔ اگر ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا چاہتے ہیں، عزت و وقار کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ دنیاپرستی کو ترک کرکے رجوع الی اللہ ہوجائیں، دنیا کیا کہی گا کا راگ آلاپنا چھوڑ کر بروز محشر خدا اور اس کے رسولؐ کو کیا جواب دوں گا اس تصور کو اپنے ذہن میں مستحضر کرلیں۔ مزید برآں ہمیں مخصوص محافل میں قرآن مجید کی مجرد تلاوت کرنے کے بجائے اس میں غور و فکر کرتے ہوئے قرآنی ارشادات پر عمل کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہیے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تلاوت قرآن مجید یقینا باعث سعادت ہے لیکن قرآن مجیدکی تفہیم باعث ہدایت اور اس پر عمل پیرا ہونا باعث نجات ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ کر اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے کی کوشش کرنی شروع کردیں گے تو یقینا اللہ تعالی ہمیں دنیا وآخرت میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے گا۔ دین اسلام میں انفرادی عبادت سے زیادہ اجتماعی عبادت کو اہمیت دی گئی ہے چونکہ اس سے امت کے اتحاد کا اظہار ہوتا ہے لیکن صدحیف ہم نماز، روزہ اور حج جیسی عظیم عبادتیں اجتماعی طور پرادا کرتے ہیں لیکن ہم نے ان عبادتوں کی روح یعنی اتحاد و اتفاق کے پیغام کو سمجھ سکے اور نہ ہی اپنی زندگی میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا اندازہ کرسکے یہی وجہ ہے کہ ایک خدا، ایک رسول اور ایک قرآن مجید کو ماننے والی قوم کئی خانوں اور گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ قرآن مجید نے اتحاد کو اپنانے اور ہر قسم کے اختلاف و تفرقہ بازیوں سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے لیکن آج ہم اسلام ہی کے نام پر گروہ بندیوں کاشکار ہوچکے ہیں۔ قرآن مجید مسلمانوں کو یاددہانی کراتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ یاد کرو اس وقت کو جب عداوت کی وجہ سے تمہارے دل گہرے کینہ سے سالہاسال تک بھرے ہوئے ہوتے تھے اور ایک معمولی سے مسئلہ پر تمہارے درمیان خونیں جنگیں ہوا کرتی تھیں۔ کتب تاریخ میں دور جاہلیت میں پیش آنے والی عرب کی تاریخی جنگوں کا ذکر ملتا ہے جس میں ایک جنگ کا نام جنگ بسوس ہے جو پانچویں صدی عیسوی کے اختتام پر شمال مشرقی عرب میں ہوئی۔ اس جنگ کی حقیقت یہ ہے کہ بنو بکر کی بسوس نامی خاتون کی اونٹنی کو بنو تغلیب کے سردار نے زخمی کردیا تھا بس اتنی سی بات پر عرب کے دو قبائل یعنی بنو بکر اور بنو تغلیب کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور چالیس سال تک جاری رہی۔ اس طرح یہ بسوس کا نام عرب میں نحوست کے لیے ضرب المثل بن گیا۔ ایسے سنگین حالات میں رب کائنات نے اپنے حبیب مکرمؐ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمایا اور آپ کی بعثت کے صدقہ میں اختلاف و انتشار کا خاتمہ فرمایا اور عملی طور پر اتحاد و اتفاق کی فضا کو ہر سو عام کیا۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے اور مضبوطی سے پکڑ لو اللہ کی رسی کو سب مل کراور جُدا جُدا نہ ہونا اور یاجد رکھو اللہ تعالی کی وہ نعمت (جو اس نے) تم پرفرمائی جب کہ تم تھے (آپس میں) دُشمن پس اُس نے اُلفت پیدا کردی تمہاری دلوں میں تو بن گیے تم اس کے اِحسان سے بھائی بھائی۔ اور تم کھڑے تھے دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تو اس نے بچالیا تمہیں اس (میں گِرنے) سے۔ اس آیت پاک کی روشنی میں دو چیزیں بہت واضح ہوجاتی ہیں کہ اتحاد و اتفاق اللہ تعالی کی نعمت اور اس کا بہت بڑا احسان ہے جبکہ اختلاف و پراگندگی دوزخ میں لیجانے والا عمل ہے۔ اللہ تعالی نے میلاد مصطفیؐ کے صدقہ میں ہمیں اسلام اور ایمان سے نوازا اور ان کی برکتوں سے ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت و محبت پیدا فرمادی اور ہم ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ اب ہم پر لازم ہے کہ اگر ہم اللہ تعالی کی نعمتوں واحسانات کے حقدار بننا چاہتے ہیں اور دوزخ کے گڑھے میں گرنے سے بچنا چاہتے ہیں تو باہمی اختلاف و انتشار کو دور کریں اور ہمیشہ اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی گزاریں۔ دین اسلام باہمی اخوت و محبت ، اتحاد و اتفاق ، الفت و یگانت پر باربار زور دیتا ہے جس سے اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اتحاد و اتفاق کو اللہ تعالی کی نعمت اور انتشار و اختلاف کو باعث عذاب گردانا ہے لیکن اس کے باوجود آج ہم علمی و فروعی مسائل کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کے ساتھ دست بہ گریباں ہورہے ہیں جس کی وجہ سے وحدت امت پارہ پارہ ہورہی ہے جس کا بھرپور فائدہ اغیار اور معادنین اسلام کو پہنچ رہا ہے اور وہ امت مسلمہ میں فرقہ وارانہ ، علاقائی تعصبات اور دیگر فتنے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ مسلمان احترام انسانیت، باہمی رواداری اور تحمل و برداشت جیسی اخلاقی خوبیوں سے محروم ہوکر دوزخ کے گڑھے کے حقدار بن جائیں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔