تحریر: شہاب حمزہ
8340349807
مولانا ابوالکلام آزاد نے تقریباً ایک صدی قبل تعلیمی نصاب کے تعلق سے کہا تھا کہ” وقت اور ضرورت کے لحاظ سے اگر ہم تعلیمی نصاب میں تبدیلی نہ لا سکیں تو ہمارے مستقبل کے لئے کسی طور بہتر نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ پانچ سو سال پرانی نصاب ہمارے مدارس میں آج بھی رائج ہیں۔ ذرا غور کریں جدیدیت کے اس دور میں ہم نے اپنی نئی نسلوں کو کیا دے رہیں کیسی تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔” مولانا ابو الکلام آزاد نے یہ باتیں ہندوستان کے نازک دور میں ایک صدی قبل کہی تھی۔ جب انہوں نے اس دور کو دور جدید کہا تھا آج غور کریں۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی اور ہم عہد قدیم کی نصابوں پر آج بھی انگلیاں پھیر رہیں ہیں۔ صدیوں پرانی تعلیمی مزاج سے اپنے نئے ذہنوں کو آج بھی آراستہ کر رہی ہیں۔ میں اپنی تحقیق جس کا عنوان تھا "رانچی میں نظر بندی کے دوران مولانا آزاد کی ادبی و ثقافتی تحریک” کے دوران تعلیمی نصاب کے تعلق سے ایک اہم اور افسوس ناک واقعہ سننے اور جانے کو ملا کہ رانچی میں نظر بندی کے دوران مولانا آزاد نے مدرسہ اسلامیہ رانچی جو اپر بازار میں واقع ہے اس عمارت کی تعمیر کرائی اور یہ مدرسہ شروع کیا۔ ان باتوں سے سارے لوگ واقف ہیں لیکن اس بات سے بہت کم لوگ نے واقف ہیں کہ مولانا آزاد نے قیام رانچی کے دوران موجودہ وقت کے لحاظ سے ایک تعلیمی نقاب ترتیب دی تھی اس امید کے ساتھ کہ ملک بھر میں یہ نصاب رائج کی جائے گی۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ یہ نصاب خود ان کے ذریعہ قائم شدہ مدرسہ میں بھی رائج نہ کیا جا سکا۔ اور مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک اہم ترین خواب جس کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا خواب بن کر رہ گیا۔ اس وقت کے ذمہ داروں کے ذہن پر صدیوں پرانے نصاب کا ایسا دبدہ قائم تھا کہ اس مدرسہ کے بانی کے ذریعہ بنایا گیا نقاب بھی رائج نہ کیا جا سکا۔ موجودہ دور کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہمارے ذمہ دار روایتوں کی بندشوں میں آج بھی قید ہیں۔یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ تعلیمی نصاب پر غور و خوض کیا جائے اور موجودہ دور کی تقاضوں کی عین مطابق تعلیمی نصاب تیار کیے جائیں ۔ میرے اس خیال سے ملک کے بہت سارے لوگ اتفاق رکھتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں بہت سارے مفکروں اور دانشوروں کی رائے سے شاید میری رائے ملتی ہو۔
تعلیمی نصاب کے تعلق سے دور جدید کے ایک عظیم الشان مفکر اور دانشور کا جو واقعہ میرے ساتھ گزرا وہ اس عہد کی آواز اور اہم ترین ضرورت ہے۔ تقریبا دو سال قبل میں دفتر جانےکو تیار تھا کہ میرے چچا نے آواز دی کہ دیکھو کوئی تم سے ملنے آیا ہے۔ میں دیکھا کہ سفید بال اور داڑھی والا میانہ قد کا ایک شخص معمولی سے کپڑوں میں کسی ٹی شرٹ کے اوپر واچ مین والا ایک قمیص پہنا ہوا پاجامہ کا جاربند لٹکا ہوا معمولی سے پھٹے حال جوتے میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ یقین جانے کہ دیکھ کے یہ احساس ہوا کہ کوئی ضرورت مند شخص ہو۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے مسافحہ کیا اور تحقیق کے طور پر مجھ سے میرا نام پوچھا۔ یقینی طور پر اس ابتدائی ملاقات میں ان کے اخلاق و محبت کا اندازہ ہوا۔ ان دنوں اتفاق سے ہمارے یہاں اپنے چچا مونگیر کالج کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر عبدالر الرحمن صاحب تشریف فرما تھے۔ ڈاکٹر صاحب ، میں اور وہ اجنبی شخص باتیں کرنے لگے۔ اس اجنبی شخص نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے علاقہ میں ایک اسکول قائم کرنا چاہتا ہوں ۔ جس کے لئے آپ کی مدد کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اخباروں میں اپنے خیالات کا اظرار کرنے والوں میں لکھنے والوں میں مجھے اب تک چار لوگوں نے متاثر کیا ہے جس میں دو پیروں ممالک اور دو اپنے ملک کے ہیں۔ ان چار میں انہوں نے مجھ ناچیز کا بھی نام لیا جو مجھ جیسے کم علم اور نا اہل کے لئے کسی سند سے کم نہیں۔ انہوں نے اسکول کے قیام کے تعلق سے بتایا کہ مجھے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ایک نئی شروعات کے لئے قربانی دے سکیں۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا کہ مہنگائی کے اس دور میں قربانی پیش کرنے والے اب باقی نہیں رہے۔ ان کی امید بھریں نگاہیں مجھے دیکھ رہیں تھیں ۔میں نے کہا کہ اگر آپ اسکول قائم کرنے کے خواہاں ہیں تو میں آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں ۔ چونکہ میری ملازمت ہے لہذا وقت نکال پانا نہایت مشکل ہے۔ پھر بھی جو ممکن ہوگا میں کروں گا۔ اُس دن بلاک آفس میں میٹینگ کا دن تھا جس کی تیاری میں رات میں کافی دیر تک کیا تھا اور مجھے جانے کی جلندی بھی تھی لہذا میں اس ملاقات کو مختصر کرنا چاہتا تھا۔ میں ان سے چائے کے لئے کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میں آپ سے ملاقات کے لئے 350 کیلومیٹر کا سفر طے کر کے آیا ہوں جائے پینے نہیں۔ اس ملاقات کے بعد شاید وہ نا امیدی کے ساتھ رخصت ہوتے ہوئے پوچھے کہ ریلوے اسٹیشن کس طرح جایا جا سکتا ہے۔ میں انگلی کے اشارے بازار کا راستہ دکھاتے ہوئے کہا کہ پہلے چوراہے پر آٹو کھڑی رہتی ہے اسٹیشن کے لئے ۔ ملاقات ختم ہوئی وہ بازار کی جانب اور میں دفتر کی جانب روانہ ہوا ۔ دفتر جاتے ہوئے تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا کہ کوئی شخص اتنی دور سے تمہارے پاس آیا اور تم نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ میں ضمیر کی آواز سن کر یہ سوچا کہ اگر وہ شخص سچا ہوگا اور صرف مجھے ملنے آیا ہوگا تو ضرور اسٹین پر بیٹھا ہوگا کیوں کہ ابھی ٹرین آنے میں دو گھنٹے کا وقت ہے۔ لہذا میں بلاک ترقیاتی افسر ڈاکٹر پروین کو میٹینگ میں تاخیر سے آنے کا میسج ڈال کر اپنی بائیک کا رخ موڑا اور پندرہ بیس منٹ میں اسٹیشن پہنچا اور وہاں کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شخصی تنہا پلیٹ فارم پر بیٹھا انہیں دیکھ کر تمام مخلصانہ باتوں کا یقین بڑھ گیا میں ندامت کے ساتھ ان کے قریب گیا ادب سے ملا اور پھر جو باتیں جانتے کو ملیں وہ حیران کن تھیں۔ معمولی لباس پہنا وہ شخص جہانہ باد ضلع بہار کے رہنے والے تھے۔ ایجو کیشن افسر کے عہدہ سے سبکدوس ہوئے تھے۔ روزانہ دنیا کے کم سے کم دس ملکوں کے لیڈنگ اخبارات کا مطالعہ کرنا ان کا معمول ہے ۔ اپنے وطن عزیز کے 10 سے 15 اخباروں کا پڑھنا ان کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ ان اخبارات کہ نیوز سے کہیں زیادہ وہ ویوز دیکھا کرتے ہیں ۔ وہ انگریزی زبان کے بھی ماہر ہیں بہت اچھی انگریزی بول لیتے ہیں ۔ وہ ملک کے موجودہ تعلیمی نصاب سے مطمئن نہیں تھے ۔ لہذا وہ دنیا کے دس ترقی یافتہ ملکوں کی نرسری سے 12 ویں تک کی کتابیں نہایت مشکل اور بڑے خرچ کے بعد اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کا بغور مطالعہ کرکے انہوں نے ایک تعلیمی نصاب تیار کیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ملک اس لئے ترقی کی منزل پر ہیں کیونکہ ان کے نصاب میں روح ہے جو بچوں میں جان ڈالنے کا کام کرتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نصاب مردہ ہے اور ہم پرانے خیالات کی قربان گاہ پر نئی نسلوں کی بلی دے رہیں ہیں ۔ ہم ترقی کی منزلوں تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک موجودہ عہد کے گلوب لاٹریشن کے عین مطابق نئے ذہنوں کی تعمیر نہ کر لیں ۔ انہوں نے مجھے اپنا فون نمبر دیا تھا جو ضائع ہو گیا اور اس واقعہ کے فوراً بعد میں شدید مشکلات اور مصیبت میں گھرا رہا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سو میں ان سے رابطہ نہ کر سکا۔ لیکن وہ مجھے وعدہ کر گئے تھے کہ میں بہت جلد آؤں گا۔ میں آج بھی ان کے انتظار میں ہوں۔ میں یہ روداد صرف اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں کہ تعلیمی نصاب کی اہمیت بتا سکوں بلکہ ان سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ کہ آپ مجھے بلا لیں یا مجھ سے رابط کریں ۔اگر کسی دوسرے خطے میں آپ نے اسکول کی ابتدا کر لی ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے تو ضرور خبر کرنی کی زحمت کریں۔ یا آ جائیں آپ کے خوابوں کے سہارے آپ کی ساگردی میں ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کرتے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی قربانی آپ کی محنت اور آپ کا خواب آپ کے بعد اور آپ کے ساتھ دفن ہو جائے اور ہندوستان ایک عظیم الشان تعلیمی نصاب سے محروم رہ جائے ۔