نبی کریمﷺ

تو شمع رسالتﷺ ھے عالم تیرا پروانہ

یمن میں ہر طرف خوشی و مسرت کے دیپ روشن تھے، فضا اجلی اجلی تھی، ماحول میں نکھار آ گیا، برسوں سے حبشیوں کی غلامی میں جکڑا ہوا یمن آج آزاد ہوا تھا۔ ویسے بھی آزادی کی صبح بڑی درخشاں ہوتی ہے… حبشیوں نے یمن پر قبضہ جمایا، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ انسانیت کو رُسوا کر چھوڑا۔ یمن سے ایک جیالا اٹھا۔ طاقت و قوت سے لیس ہوا۔ اور دشمن پر یلغار کر دی۔ حبشی شکست سے دوچار ہوئے۔ بالآخر یمن کو آزادی نصیب ہوئی۔

    بات اہم تھی۔ پورے عرب میں یمن کی آزادی کا چرچا ہوا۔ شاہِ یمن سیف بن ذی یزن کے دربار میں وفود آنے لگے۔ تہنیت کے پیغامات بٹنے لگے۔ عرب کے قبیلہ قریش کا ایک قافلہ شاہِ یمن کو فتح کی مبارک باد دینے مکہ معظمہ سے روانہ ہوا۔ جس کی قیادت حضرت عبدالمطلب بن ہاشم فرما رہے تھے… صبح کا سپیدا نمودار ہوا۔ خنک ہوائیں چل رہی تھیں کہ یہ قافلہ حدود یمن میں داخل ہوا۔ کچھ ہی دیر میں شاہی محل کے رو برو پہنچ گیا۔ شاہِ یمن کے دربار میں اطلاع بھجوائی گئی۔ اذنِ حاضری ملا۔ وفد دربار میں پہنچا۔ شاہِ یمن سیف بن ذی یزن نے حضرت عبدالمطلب سے کہا:
    ’’اگر تمہیں دربار شاہی میں لب کشائی کے آداب کا علم ہے تو ہم تمہیں گفتگو کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘
    حضرت عبدالمطلب نے فصیح و بلیغ گفتگو کی۔ بادشاہ حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے آپ کا تعارف دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا:
    ’’میں ہاشم کا بیٹا عبدالمطلب ہوں۔‘‘
    بادشاہ بہت احترام سے پیش آیا۔ شاہی اعزاز کے ساتھ اس وفد کو ٹھہرایا۔ خوب تواضع کی۔ اس اکرامِ خصوصی اور توجہِ خاص کا مطلب سمجھ میں نہ آیا!… کچھ مدت قافلہ قیام پذیر رہا۔ رخصت کی گھڑی قریب آئی۔ شاہِ یمن نے حضرت عبدالمطلب کو خلوت میں طلب کیا۔ اور کہا:
    ’’اے عبدالمطلب! دل کے نہاں خانے میں ایک راز ہے۔ میں اس سے تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ بتاؤ! تم اسے افشا تو نہیں کرو گے اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ خود ظاہر فرما دے۔‘‘
    پھر شاہِ یمن نے کہا:
    ’’میں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے: اِذَا وُلِدَ بِتِھَامَۃَ غُلَامٌ بَیْنَ کَتَفَیْہِ شَامَۃٌ کَانَتْ لَہُ الْاِمَامَۃُ وَلَکُمْ بِہِ الزِّعَامَۃُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ جب تہامہ میں ایک ایسا بچہ پیدا ہو جس کے کندھوں کے درمیان نشان ہو وہی امام ہو گا۔ اور اس کے صدقہ قیامت تک تمہیں سرداری نصیب رہے گی۔‘‘
    شاہِ یمن نے کہا: ’’ہم اپنے علاوہ اپنی کتاب کے مطالعہ کی کسی کو اجازت نہیں دیتے، وہ ایک رازِ نہاں ہے۔‘‘
    حضرت عبدالمطلب نے فرمایا: ’’اگر شاہی جلال اور ادب حائل نہ ہوتا تو میں بشارت کی تفصیل کی خواہش کرتا تا کہ میری مسرتوں میں اور اضافہ ہوتا۔‘‘
    شاہ یمن نے کہا: ’’ممکن ہے وہ عظیم بچہ پیدا ہو چکا ہو۔ اس کا نام ’’احمد‘‘ ہے۔ اس کے والد اور والدہ رحلت کر جائیں گے۔ اس کے مشفق دادا اور چچا اس کی کفالت کریں گے۔ اس کی وجہ سے اصنامِ عرب پاش پاش کر دیے جائیں گے۔ صدیوں سے جل رہے آتش کدے بجھا دیے جائیں گے۔ ان کی آگ سرد ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے گی۔ اور شیطان ذلت سے دوچار ہو جائے گا۔ ہم اہلِ یمن اس کے مددگار بنیں گے۔ اس کے جاں نثار اور اصحاب کی فتح کا سبب ہم بنیں گے۔ وہ جہان کو رحمتوں سے بھر دے گا۔ سچائی اور انصاف کو نافذ کرے گا۔ اس کا دشمن ذلت و رُسوائی میں مبتلا ہو گا۔‘‘
    حضرت عبدالمطلب نے بادشاہ سے مزید وضاحت طلب کی تو شاہِ یمن ابنِ ذی یزن نے پر عزم لہجے میں کہا:
    ’’اے عبدالمطلب! تم ان کے دادا ہو۔‘‘
    یہ سننا تھا کہ حضرت عبدالمطلب کا چہرہ دمک اٹھا۔ فرطِ مسرت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ بشارت با برکت نے نہاں خانۂ دل کو نہال کر دیا۔ فوراً بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر ادا فرمایا… بادشاہ نے بے تاب ہو کر کہا:
    ’’سر اٹھائیے اور مجھے بتایے کہ جو علامات میں نے آپ کو بتائی ہیں کیا ان میں سے آپ نے کچھ مشاہدہ کیا ہے؟‘‘
    حضرت عبدالمطلب نے کونین کے آقا رحمت عالم نور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت، نام پاک، والدین کے وصال، اور مبارک کندھوں کے درمیان نشانِ اقدس کے بارے میں بتایا… شاہِ یمن ابنِ یزن نے ہدایت کی کہ: اس امر سے کسی کو آگاہ نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ حسد کے جذبات سینوں میں بھڑک اٹھیں۔ اس نے رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہودیوں سے محفوظ رکھنے کی تاکید کی اور کہا: ’’یہود (رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے) بدترین دشمن ہوں گے۔‘‘
    اس کے بعد شاہِ یمن نے حضرت عبدالمطلب کو مبارک باد دی یوں اس نے اعلانِ نبوت سے پہلے ہی شان و عظمت اور ولادت کا تذکرہ کر کے میلاد نبوی منایا۔ عقل کہتی ہے کہ یہ خدائی اہتمام تھا کہ بشارتوں کی نوائے دل نوازبہت پہلے سے ہی گونج رہی تھی۔ مختلف انداز میں رب کریم نے اپنے محبوب کی ولادت کے جشن منائے جانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ فطری انداز میں اس کی تعمیل بھی ہوتی رہی۔ بہر حال شاہِ یمن نے حضرت عبدالمطلب کو خلعتِ شاہانہ و انعامات خسروانہ سے نواز کر بڑے ادب کے ساتھ یمن سے جانب مکہ رخصت کیا، حضرت مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے خوب ہی کہا ہے:

تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ 
تو ماە نبوت ہے اے جلوە جانانہ 

تحریر: غلام مصطفٰی رضوی 
نوری مشن مالیگاؤں

ترسیل : اعلیٰ حضرت ریسرچ سینٹر مالیگاؤں

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے