فہرست عناوین!
- حضورﷺ کا نور جمیع مخلوقات میں سب سے پہلے۔
- نورِمصطفٰیﷺکہاں کہاں رہا؟
- نورِ مصطفٰیﷺحضرت آدم علیہ السلام کے پاس۔
- نورِمصطفٰیﷺآباء واجداد کی پاک پُشتوں میں۔
- نورِ مصطفٰیﷺحضرت شیث علیہ السلام کی پُشت مبارک میں۔
- نورِ مصطفٰیﷺ حضرت نوح و حضرت ابراهیم علیهما السلام کے پاس۔
- نورِمصطفٰی حضورﷺ کے پر دادا حضرت ہاشِم کے پاس۔
- نورِ مصطفٰیﷺ زحضورﷺکے دادا حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہ کے پاس۔
- نورِ مصطفٰیﷺ حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ کے پاس۔
- نورِ مصطفٰیﷺ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس۔
- حضورﷺ کی دنیا میں تشریف آوری پر ستارے زمین سے قریب تر ہوگئے۔
- حضورﷺ کی ولادت كی رات کسرٰی کےمحل میں زلزلہ آ گیا۔
(1)کائنات کی ہر چیز سے پہلے نور مصطفٰی ﷺ کی تخلیق ہوئی ۔
قرآنِ مجید میں نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے حکایت ہے؛
وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (پاره 8 سورة الانعام، آيت 163)
ترجمۂِ کنز الایمان: میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔
علامہ نظام الدین حسن بن محمد نیشا پوری رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ (اَلۡمُتَوَفّٰی 850ھ)فرماتے ہیں
((وَأَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ عند الإيجاد لأمر كن كما قال: اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰه نُوۡرِی))
ترجمہ: میں سب سے پہلا مسلمان ہوں امرِ کن سے ایجاد کے وقت جیسا کہ حدیثِ پاک میں فرمایا: سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔
(تفسیر نیشاپوری ، ج 3 ، ص 196 ، دار الكتب العلمية، بيروت)
حضرت جابربن عبداللّٰه انصاری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نےعرض کیا يارسول اللّٰه صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم
((اَخۡبِرۡنِیۡ عَنۡ اَوَّلِ شَيۡئٌ خَلَقَهُ اللّٰهُ تَعَالٰی قَبۡلَ الۡاَشۡيَاءِ))
سب اشیاء سےپہلےکس چیز کو اللّٰه عَزَّ وَجَلَّ نے پیدا کیا؟ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نےفرمایا:
((يَاجَابِرُاِنَّ اللّٰه خَلَقَ قَبۡلَ الۡاَشۡيَاءَ نُوۡرَ نَبِيِِّكَ مِنۡ نُوۡرِهِ))
اےجابر بےشک اللّٰه عَزَّ وَجَلَّ نےتمام چیزوں سےپہلےتیرےنبی کانوراپنےنورسےپیدافرمایا
((وَلَمۡ یَكُنۡ فِیۡ ذٰلِكَ الۡوَقۡتِ لَوۡحٌ وَّلاَقَلَمٌ وَّلاَجَنَّةٌوَّنَارٌوّمَلَكٌ وَّلاَسَمَاءٌوَّلاَاَرۡضٌ وَّلاَشَمۡسٌ وَّلاَقَمَرٌوَّلاَجنِِّیٌ وَّلاَاِنۡسِیٌ))
اس وقت نہ لوح نہ قلم نہ جنت نہ دوزخ نہ فرشتہ نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن نہ انسان کچھ بھی نہ تھا۔
(مواهب لدنيہ ج1ص9،
سیرت حلبیه ج1ص50،
زرقانی ج1ص46)
(2)نورِمصطفٰی ﷺ کہاں کہاں رہا:
جب حضرت آدم علیہ السّلام پیدا ہوئے تو نورِمصطفٰی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم عرش کے پَردوں پر نظر آیا
عظیم محدث امام قسطلانی رحمة اللہ علیہ (اَلۡمُتَوَفّٰی 923ھ) نقل کرتے
ہیں:
((لَمَّا خَلَقَ اللّٰهُ ادَمَ اَلْهَمَهُ أَنْ قَالَ يَارَبِِّ لِمَ كُنِيَّتِي أَبَا مُحَمَّدٍ؟ قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى يَا آدَمُ ارْفَعُ رَأْسَكَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَرَأَى نُوْرَ مُحَمَّدٍ فِي سَرَادِقِ الْعَرْشِ فَقَالَ: يَارَبِِّ مَا هٰذَا النُّوْرُ؟ قَالَ: هٰذَا نُورُنَبِيِِّ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ اسْمُهُ فِي السَّمَاءِ أَحْمَدٌ وَفِي الْأَرْضِ مُحَمَّدٌ لَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُكَ وَلَا سَمَاءَ وَلَا أَرْضاً))
ترجمہ: مروی ہے کہ جب اللہ تعالٰی نےحضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کو الہام فرمایا (کہ وہ یہ عرض کریں): اے میرے رب ! تو نے میری کنیت ابو محمد کیوں رکھی ہے؟ تو اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: اے آدم! اپنا سر اٹھاؤ ، آپ نے سر اٹھایا تو نورِمحمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کو عرش کے پَردوں میں دیکھا، عرض کیا: اے میرے رب ! یہ نور کیسا ہے ؟ تو اللہ تعالٰی نے فرمایا: یہ نور تیری اولاد میں سے ایک نبی کا نور ہے ، اس کا نام آسمانوں میں احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور زمین میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، اگر یہ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا اور نہ ہی آسمان و زمین کو پیدا کرتا۔
(مواہب اللدنيه ، باب تشریف الله تعالٰی له صلى الله تعالٰی عليه وسلم ، ج 1 ، ص 47، المكتبةالتوفيقيه القاهره مصر)
(3) نورِ مصطفٰیﷺ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس:
نور مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی پُشتِ اطہر میں رکھ دیا گیا جو کہ پیشانی سے چمکتا تھا۔ علامہ اسماعیل حقی رحمة اللہ تعالٰی علیہ (متوفی 1127ھ) فرماتے ہیں:
((ولما خلق الله آدم جعل نور حبيبه في ظهره فكان يلمع في جبينه))
ترجمہ: جب اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور کو ان کی پُشت میں رکھ دیا تو وہ (اس قدر روشن و تابندہ تھا کہ) ان کی پیشانی میں چمکتا تھا۔
(تفسير روح البيان، سورة التوبه تحت آیت 128، ج 3، ص 543، دار الفکر، بیروت)
فِرِشتوں کو حکم دیا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو اس کا سبب ہی یہی تھا کہ آپ کی پیشانی میں نورِمصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم چمکتا تھا۔ سیدالمفسرین امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ (اَلۡمتوفّٰی 606ھ) فرماتے ہیں
((اِنَّ الْمَلَائِكَةَ أُمِرُوا بِالسُّجُودِ لِآدَمَ لاجَلٍ أَنَّ نُورَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیۡهِ وَسَلّمَ فِي جَبْهَةِ آدَم))
ترجمہ: بےشک ملائکہ کو حکم دیا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں اس کی وجہ یہ تھی کہ نورِمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کی پیشانی میں تھا۔
(تفسیرِکبیر، سوره بقره، تحت آیت 253 ، ج 6، ص 525 ، دار احياء التراث العربي ، بيروت)
علامہ اسماعیل حَقِِّی رحمة اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں
((هذا في الحقيقة تعظيم للنور المنطبع في مرآة آدم عليه السلام وهو النور المحمدى والحقيقة الاحمدية))
ترجمہ:حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کروانے میں حقیقتاً اس نور کی تعظیم مقصود تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی میں موجود تھا، وہ حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نور اور حقیقت احمدیہ تھا۔
(تفسیر روح البیان ، ج 4، ص 462، دار الفکر، بیروت)
(4)نورِمصطفٰی ﷺ آباء واجداد کی پاک پُشتوں میں:
پھر نورِمصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے آباء واجداد کی پُشتوں میں منتقل ہوتا رہا۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے
قرآنِ مجید
الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُ()وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ()
ترجمۂِ کنز الایمان
جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو۔ اور نمازیوں میں تمہارے دورے کو۔
(پارہ 19 سورة الشعراء، آیت 218, 219)
صدر الا فاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمة اللہ تعالٰی علیہ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں ساجدین سے مؤمنین مراد ہیں اور معنی یہ ہیں کہ زمانہ حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حوا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے لے کر حضرت عبد الله رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ و حضرت آمنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا تک مؤمنین کی اصلاب وارحام میں آپ کے دورے کو ملاحظہ فرماتا ہے،اس سے ثابت ہوا کہ آپ کے تمام اصول آباء و اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب مؤمن ہیں۔
(تفسیر خزائن العرفان، ص 677مطبوعه ضیاء القرآن، لاہور)
امام طبرانی رحمة اللہ تعالٰی علیہ ( متوفی 360ھ) نے اپنی سند کے ساتھ اس آیت کی تفسیر میں روایت نقل کی ہے ((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَتَقَلْبَكَ فِي السَّاجِدِينَ)قَالَ : مِن : نَبِيِِِّ إِلَى نَبِيِِِّ حَتَّى أُخْرِجْتَ نَبِيًّا))
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں: اللہ تعالٰی ساجدین میں آپ کے دورے کو ملاحظہ فرماتا ہے یعنی ایک نبی سے دوسرے نبی تک آپ کے دورے کو ملاحظہ فرماتا ہے یہاں تک کہ آپ دنیا میں تشریف لائے اس حال میں کہ آپ نبی ہیں۔
(المعجم الكبير للطبراني ، عكرمه عن ابن عباس، ج 11، ص 362 ، مكتبه ابن تیمیه، القاهره)
ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصبہانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (اَلۡمُتَوفّٰی 430ھ) اس آیت کی تفسیر میں روایت نقل کرتے ہیں (( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ) مَا زَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَلَّبُ فِي أَصْلَابِ الْأَنْبِيَاءِ، حَتَّى وَلَدَتْهُ اُمُّه))
ترجمه: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ تعالٰی وسلم کے دورہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ انبیاء علیہم السلام کی اصلاب (پاکیزہ پُشتوں) میں دورہ فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ اپنی والدہ سے پیدا ہوئے۔
(دلائل النبوة لابی نعیم ، ذكر فضيلته صلى الله تعالى عليه وسلم بطيب ، ج 1 ، ص 58 ، دار النفائس بيروت)
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ تعالی علیہ ( اَلۡمُتَوَفّٰی 911ھ ) روایت نقل کرتے ہیں۔
(( وأخرج ابن مَردَوَيَه عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: سَأَلَت رَسُول الله صلى الله تعالٰی عليه وسلم فقلت : بأبي أنت وأمى أين كنت و آدَمَ فِي الْجَنَّةِ فَتَبَسَّمَ حَتَّى بَدَت نواجذه ثمَّ قَالَ إِنِِّي كنت في صلبه وَهَبَطَ اِلَی الارض وَأنَا في صلبه وَركبت السَّفِينَة في صلب أبى نوح وقذفت في النار في صلب أبي إبراهيم ولم يلتق أبواى قطّ على سفاح لم يزل الله ينقلني من الإصلاب الطَّيبَة إلَى الأرحَام الطاهرة مصفى مهذباً لا تتشعب شعبتان إلا كنت في خيرهما))
ترجمہ: ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت نقل کی ہے، آپ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ اس وقت کہاں تھے جب حضرت آدم علیہ السلام جنت میں تھے؟ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تبسّم فرمایا یہاں تک کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے ، پھر فرمایا : (اس وقت) میں ان کی پُشت میں تھا، جب وہ زمین پر اُتارے گئے تو(بھی)میں ان کی پُشت میں تھا اور میں کشتی میں سوار ہوا اپنے والد حضرت نوح علیہ السلام کی پُشت میں اور میں آگ میں پھینکا گیا اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پُشت میں ، میرے والدین نے کبھی بھی سفاح(بدکاری) نہیں کی ، اللہ تعالٰی مجھے ہمیشہ اصلابِ طیبہ سے ارحامِ طاہرہ کی طرف منتقل کرتا رہا پاک صاف اور مہذب طریقہ سے، جب بھی دو گروہ بنتے تو مَیں ان مِیں سے بہتر گروہ میں ہوتا ۔
(تفسیر در منثور، ج 6، ص 330 ، دار الفکر بيروت)
(5) نورِ مصطفٰی ﷺ حضرت شیث علیہ السلام کی پُشت مبارک میں:
علامہ اسماعیل حقی رحمة اللہ تعالٰی علیہ (متوفی 1127ھ) فرماتے ہیں:
((ولما خلق الله آدم جعل نور حبيبه في ظهره فكان يلمع في جبينه ثم انتقل الى ولده شيث الذي هو وصيه والثالث من ولده وكانت حواء تلد ذكرا وأنثى معا ولم تلد ولدا منفردا الا شيث كرامة لهذا النور ثم انتقل الى واحد بعد واحد من أولاده الى ان وصل الى عبد المطلب ثم الى ابنه عبد الله ثم الى آمنة)) ترجمہ: جب اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اپنے حبيب صلى الله علیہ وسلم کے نور کو اُن کی پُشت میں رکھ دیا تو وہ نور ان کی پیشانی میں چمکتا تھا، پھر یہ نور حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام کی طرف منتقل ہو گیا جو کہ ان کے وصی تھے اور ان کی اولاد میں سے تیسرے تھے، حضرت حواء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہاكو ایک بچہ اور ایک بچی اکٹھے پیدا ہوتے تھے، صرف حضرت شیث علیہ السلام اکیلے پیدا ہوئے نور مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کی وجہ سے، پھر نورِمصطفٰی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم یکے بعد دیگرے ان کی اولاد میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پاس آیا ، پھر ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کےپاس آیا اور پھر حضرت آمنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے پاس تشریف لایا۔
(تفسير روح البيان، سورة التوبه ، تحت آیت 128 ، ج 3 ، ص 543، دار الفکر، بیروت) محدث وفقیہ علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالٰی علیہ (مُتَوَفّٰی 1014) فرماتےہیں
"والحاصل أن نور محمد صلى الله عليه وسلم انتقل من آبائه الكرام إلى أن ظهر ظهورا بينا في ظهر إبراهيم عليه الصلاة والسلام “
ترجمہ: حاصل کلام یہ ہے کہ نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آباء کرام سے منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پشتِ اطہر میں خوب ظاہر ہوا۔
(شرح شفاء الفصل الأول فيما جاء من ذلك مجى ، المدح ، ج 1 ، ص 50 ، دار الكتب العلميه بيروت)
(6)نورِ مصطفٰیﷺ حضرت نوح و حضرت ابراهیم علیهما السلام کے پاس:
امام علی بن ابراہیم طلبی رحمة اللہ تعالٰی علیہ (متوفی 1044ھ) نقل کرتے ہیں :
(( قال صلی الله عليه وسلم : فأهبطنى الله تعالٰى إلى الأرض في صلب آدم، وجعلني في صلب نوح، وقذفني في صلب إبراهيم عليهم الصلاة والسلام ثم لم يزل ينقلني من الأصلاب الكريمة والأرحام الطاهرة حتى أخرجني من بين أبوى لم يلتقيا على سفاح قط))
ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالٰی نے مجھے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کی پُشت میں اتارا اور مجھے حضرت نوح علیہ السلام کی پُشت میں رکھا ، اور مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پشت میں رکھا، مجھے اصلابِ کریمہ اور ارحامِ طاہرہ سے منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ میں اپنے والدین سے پیدا ہوا اور میرے والدین كبھی بھی بدکاری پر اکٹھے نہیں ہوئے۔
(سیرت حلبیه باب نسبه الشريف صلى الله عليه وسلم ، ج 1 ، ص 47، دار الكتب العلمية، بيروت)
(7)نورِ مصطفٰی حضورﷺ کے پَر دادا حضرت ہاشِم کے پاس:
حضرت ہاشِم کا اصل نام عمۡرۡو یا عبد العلی تھا آپ بہت بڑے سخی اور مہمان نواز تھےایک دفعہ مکہ میں بارش نہ ہونے سے قحط سالی پڑگئی لوگ پریشان ہو گئےآپ ملک شام سے بہت سا آٹا خرید کر مکہ لائےاور صبح و شام ایک ایک اونٹ ذبح کرتے روٹیاں پکوا کر سالن میں روٹیاں توڑ توڑ کر ملاتے اور مکہ والوں کو پیٹ بھر کر کھلاتےاُس دِن سے آپ کو ہاشم(روٹیوں کا چورہ کرنے والا) کے لقب سے یاد کیا جانے لگا کیونکہ هشم کے معنی ہے توڑنا،ٹکڑے ٹکڑے کرنا
((وَکَانَ نُوۡرُ رَسُوۡلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیۡهِ وَسَلَّمَ فِیۡ وَجۡھِهِ يَتَوَقَّدُشُعَاعُهٗ وَيَتَلَالَاءُ ضِیَاءُهٗ وَلَاَبَرَاہُ حِبۡرَةٌاِلَّاقَبَّلَ یَدَهٗ وَلَایَمُرُّبِشَيۡئِِ اِلَّاسَجَدَاِلَیۡهِ))
ترجمہ: "حضورصلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا نورِ پاک جو حضرت ہاشِم کے چہرہ میں تھا اُس کی شعائیں نکلتی تھیں اور اُسکی ضیائیں چمکتی تھیں جو عالِم آپ کو دیکھتا وہ آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا جس چیز کے پاس سے آپ گزرتے وہ آپ کو سجدہ کرتی”
یہی وجہ ہے کہ پورا عرب خصوصاً مکہ والے آپ کی تعظیم کرتے عرب کے ہر قبیلہ کی تمنا تھی کہ حضرت ہاشم ہماری بیٹی کو اپنی زوجیت سے شرف بخشیں یہاں تک کہ روم کے بادشاہ ہرقل نے آپ کو قاصد کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا کہ معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ آپ کو اللّٰہ پاک نے بڑی شان عطا فرمائی ہے میری آرزو ہے کہ میرے ہاں تشریف لائیں اور میں اپنی لڑکی آپ کی زوجیت میں دے دو جس لڑکی کا نکاح میں آپ کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں اُس جیسی حسین و جمیل لڑکی آج پورے روئےِ زمین پر نہیں ہوگی یہ صرف اور صرف اس لئے میں گزارش کر رہا ہوں کہ آپ کی پیشانی میں نبی اخرالزمان محمد (صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کا نور موجود ہے جسکے بارے میں ہم نے انجیل میں پڑھا اور اپنے علماء سے سنا ہے[١]
مگر آپ نے روم کے بادشاہ کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا[٢]
اور حضرت ہاشم نے فرمایا کہ میں ایسی عورت سے نکاح کروں گاجو دنیا کی تمام عورتوں سے زیادہ نیک اور پاک سیرت ہو مجھے ظاہری حُسۡن کی ضرورت نہیں میں تو باطنی حُسن کی تلاش میں ہوں تاکہ نورِمحمدی (صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم) اپنے اصلی مقام تک پہنچ سکے۔
(۱)زرقانی جلد1 صفحہ73
(۲)معارج النبوت جلداول،
سیرتِ رسولِ عربی
(8)نورِ مصطفٰی ﷺ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس:
امام قسطلانی رحمة اللہ علیہ متوفی (923ھ) فرماتے ہیں:
((وَکَانَ عَبۡدُالۡمُطَّلِبۡ يَفُوۡحُ مِنۡهُ رَائِحَةُ الۡمِسۡکِ الۡاَذۡخَرِ وَکَانَ نُوۡرُ رَسُوۡلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهِ عَلَیۡهِ وَسَلَّمَ يُضِئُ فِیۡ غُرَّتِهِ وَکَانَتۡ قُرِیۡشٌ اِذَا اَصَابَهَا قَحۡطٌ شَدِیۡدٌ فَاَخَذَ بِیَد عَبۡدِالۡمُطَّلِبِ فَتَخۡرُجُ بِهِ اِلٰی جَبَلِ ثَبِیۡرٍ فَتَیَقَرَّبُوۡنَ بِهِ اِلٰی اللّٰهِ وَیَسۡئَلُوۡنُهٗ اَنۡ يَّسۡقِيَهِمُ الۡغَیۡثَ وَكَانَ یَغِيۡثُهُمۡ وَیَسۡقِیۡهِمۡ بِبَرۡكَةِ نُوۡرُ رَسُوۡلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیۡهِ وَسَلَّمَ غَیۡثًاعَظِیۡمًا))
ترجمہ:”حضرت عبد المطلب رضی اللّٰه عنہ کے جسم سےخالص کستوری کی خوشبو آتی تھی اور رسول اللّٰه صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا نور آپ کی پیشانی میں چمکتاتھا جب قریش سخت قحط کی حالت میں ہوتے تو آپ کا ہاتھ پکڑ کر کوہِ ثبیر پر لیجاتے اور آپ کے توسل سے تقرب چاہتےاور
آپ کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے تو اللّٰه تعالٰی اُن کی فریاد رسی فرماتا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کے نور کی برکت سے اُن کو بارانِ رحمت سے سیراب فرماتا”
(مواہب اللدنيه، باب طهارة نسبه صلى الله تعالٰى عليه وسلم ، ج 1 ، ص 63 ، المكتبة التوفيقيه القاهره مصر،
زرقانی شریف،
مدارج النبوت دوم،
انوار محمدیه،
سیرة نبوی)
چونکہ یہ ” عبد مناف کے سب لڑکوں میں بڑے اور با صلاحیت تھے اس لئے عبد مناف کے بعد کعبہ کے متولّی اور سجادہ نشین ہوئے بہت حسین وخوبصورت اور وجیہ تھےجب سن شعور کو پہنچے تو ان کی شادی مدینہ میں قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا نام "سلمٰی” تھا۔ اور ان کے صاحبزادے "عبد المطلب” مدینہ ہی میں پیدا ہوئے چونکہ ہاشم پچیس(۲۵)سال کی عمر پا کر ملک شام کے راستہ میں بمقام ” غزہ ” انتقال کر گئے۔ اس لئے حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مدینہ ہی میں اپنے نانا کے گھر پلے بڑھے، اور جب سات(۷)یا آٹھ(۸)سال کے ہو گئے تو مکہ مکرمہ آ کر اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ” کا اصلی نام ” شیبہ” ہے۔ یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد وزاہد تھے ۔ غارِحرا میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خدا عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِحرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، اور خدا عَزَّوَجَلَّ کے دھیان میں گوشہ نشین رہا کرتے تھے ۔ رسول اللّٰه صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نورِنبوت ان کی پیشانی میں چمکتا تھا یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دستر خوان سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ” مطعم الطیر ” (پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔ شراب اور زنا کو حرام جانتے تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے "مُؤحد ” تھے ۔ ” زمزم شریف” کا کنواں جو بالکل پَٹ گیا تھا آپ ہی نے اس کو نئے سرے سے کھدوا کر درست کیا، اور لوگوں کو آبِ زمزم سے سیراب کیا۔ آپ بھی کعبہ کے متولّی اور سجادہ نشین ہوئے ۔اصحابِ فِیل کا واقعہ آپ ہی کےوقت میں پیش آیا۔ ایک سو بیس(١٢٠)برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔
(١)زرقانی جلداول،
مواهب لدنیہ جلد اول،
مدارج النبوۃ دوم،
انوارِ محمدیہ،
سیرۃ نبوی
(٢)زرقانی علی المواهب ج:١ ص: ٧٢
مزید فرماتے ہیں
((ولما قدم أبرهة ملك اليمن من قبل أصحمةالنجاشي لهدم بيت الله الحرام، وبلغ عبد المطلب ذلك، قال: يا معشرقريش، لا يصل إلى هدم البيت، لأن لهذا البيت ربا يحميه ويحفظه ثم جاء أبرهة فاستاق إبل قريش حتى طلع جبل ثبير، فاستدارت دائرة غرة رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبينه كالهلال واشتد شعاعها على البيت الحرام مثل السراج، فلما نظر عبد المطلب إلى ذلك قال : يا معشر قريش: ارجعوا فقد كفيتم هذا الأمر، فو الله ما استدار هذا النور منى إلا أن يكون الظفر لنا، فرجعوا متفرقين))
ترجمہ: یمن کا بادشاہ ابرہہ ( جو کہ اصحمہ نجاشی سے پہلے تھا) جب (معاذ اللہ) بیت اللہ کو منہدم کرنے کے لیے آیا ، حضرت عبد المطلب تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے قریش کو کہا : اے گروہِ قریش ! وہ بیت اللہ کو نہیں گرا سکے گا کیونکہ یہ رب عَزَّ وَجَلَّ کا گھر ہے وہ ہی اس کی حفاظت فرمائے گا۔ پھر جب ابرہہ آیا تو وہ قریش کے اونٹوں کو ہَنکا کر لے گیا۔ حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کوہِ ثبیر پر چڑھے تو نورِمصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہلال (چاند) کی شکل میں ان کی پیشانی میں اس قوت سے چمکا کہ اس کی شعاعیں چراغ کی طرح خانہ کعبہ پر پڑیں، جب حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے نورِمصطفٰی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کو خانہ کعبہ پر چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا: اے گروہ قریش ! واپس چلو تمہیں یہ امر کافی ہے، اللہ تعالٰی کی قسم جب بھی یہ نور مجھ میں اس طرح چمکتا ہے تو فتح ہماری ہوتی ہے،تمام لوگ متفرق ہو کر واپس آگئے ۔
(مواہب اللدنيه، باب طهارة نسبه صلى الله تعالٰی عليه وسلم ، ج 1 ، ص 63، المكتبة التوفيقيه القاهره مصر)
مزید حضرت عبد المطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں
((وروى: أنه لما حضر عبدالمطلب عند أبرهة أمر سايس فيله الأبيض العظيم الذي كان لا يسجد للملك أبرهة كما تسجد سائر الفيلة أن يحضره بين يديه،فَلَمَّا نَظَرَ الْفِيلُ إِلَى وَجُهِ عَبْدِا المُطَّلِبۡ يَبۡرُكُ كَمَا يُبْرُكَ الْبَعِيرُ وَخَرَّ سَاجِدًا وَانُطَقَ اللّٰهُ تَعَالٰى الْفِيلَ فَقَالَ السَّلام عَلَى النُّورِالَّذِي فِي ظَهْرِكَ يَا عَبُدَالۡمُطَّلِبۡ))
ترجمہ: جب حضرت عبدالمطلب ابرہہ کے پاس تشریف لے کر گئے تو ابرہہ نے سائیس کو حکم دیا کہ بڑے سفید ہاتھی کو لائے ، یہ وہ سفید ہاتھی تھا کہ ( سدھانے کے باوجود ) جس نے کبھی ابرہہ کو سجدہ نہیں کیا تھا حالانکہ باقی سارے ہاتھی ( سدھانے کی وجہ سے ) اسے سجدہ کرتے تھے، جب ہاتھی کی نظر حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے چہرے پر پڑی تو ان کے سامنے ادب سے اس طرح بیٹھ گیا جیسے اونٹ بیٹھتا ہے ، پھر سجدہ کرتا ہوا گر پڑا، اللہ تعالٰی نے اسے قوت گویائی عطا فرمائی تو ہاتھی نے کہا: اَلسَّلام عَلَى النُّورِالَّذِي فِي ظَهْرِكَ يَا عَبُدَالۡمُطَّلِبۡ سلام ہو اس نور پر جو تمہاری پیٹھ میں ہے اے عبدالمطلب ۔
(مواہب اللدنيه ، باب طهارة نسبه صلى الله تعالى عليه وسلم ، ج 1 ، ص 63,64، المكتبة التوفيقيه القاهره مصر)
(9)نورِ مصطفٰی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ کے پاس:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
((لما خَرَجَ عَبْدُالْمُطَّلِب بِابْنِهِ لِيُزَوِِّجَهُ بِهِ عَلَى كَاهِنَةٍ مِنْ أَهْلِ تُبَالَةَ مُتَهَوِِّدَةٍ قَدۡ قَراَتِ الكُتُبَ يُقَالُ لَهَا فَاطِمَةُ بنتُ مُرٍٍّا الخَثۡعَمِيَّةُ فَرَأَت نُورَ النُّبُوَّةِ فِي وَجْهِ عَبْدِاللَّهِ، فَقَالَتْ : يَا فَتَى، هَلْ لَكَ أَنْ تَقَعَ عَلَىَّ الْآنَ، وَأُعْطِيَكَ مِائَةً مِنَ الْإِيلِ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : أَمَّا الْحَرَامُ فَالْمَمَاتُ دُونَهُ … وَالْحِلُّ لَا حَلَّ فَأَسْتَبِينَهۡ … فَكَيْفَ لِي الأمْرُ الَّذِي تَبْغِينَهُ ، ثُمَّ مَضَى مَعَ أَبِيهِ، فَزَوَّجَهُ آمِنَةَ بِنۡتَ وَهۡب بۡنِ عَبْدِمَنَافِ بْنِ زُهْرَةَ فَأَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثََا، ثُمَّ إِنَّ نَفْسَهُ دَعَتْهُ اِلَی مَا دَعَتْهُ إِلَيْهِ الْخَثْعَمِيَّةُ، فَأَتَاهَا، فَقَالَتْ : يَا فَتَى مَا صَنَعْتَ بَعْدِي؟ قَالَ : زَوَّجَنِي أَبِي آمِنَةَ بِنۡتَ وَهۡبٍ، وَاَقَمْتُ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، قَالَتْ: إِنِِّي وَاللَّهِ مَا أَنَا بِصَاحِبَةِ رِيبَةٍ وَلَكِن رَأَيْتُ فِي وَجۡهِكَ نُوۡرًا، فَأَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ فِيَّ،وَ اَبَی اللّٰهُ إِلَّا أَنْ يُصَّيِرَّ حَيْثُ اَحَبَّ))
ترجمہ: جب عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے لختِ جگر کی شادی کے لئے نکلے تو اہلِ تبالہ کی ایک یہودی کاہنہ پرگزر ہوا اس نے کُتُب بھی پڑھ رکھی تھیں اس کو فاطمہ بنت مَرۡخَثۡعَمِیّہ کہا جاتا تھا ، ا جاتا تھا ، اس نے عبدالله رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رخِ زیبا میں ایک نور دیکھا تو اس نے کہا کہ اے نوجوان ، کیا تو ابھی میرے ساتھ جماع کی رغبت رکھتا ہے اور میں تجھے (اس کے بدلے) ایک سو(١٠٠)اونٹ دوں گی ، تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: بہر حال حرام تو اس کے ارتکاب سے موت اچھی ، اور حلال ابھی ہےنہیں تو میں اس کے بارے میں غور کروں گا۔ پس میرے لئے وہ امر کیسے ممکن ہے جس کی تو دعوت دیتی ہے، پھر والدِ گرامی کے ساتھ آگے تشریف لے گئے ، اور آمنہ (رضی اللہ عنہا) بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ سے عقد فرمایا اور تین شبانہ روز آپ کے پاس گزارے پھر آپ کے قلبِ مبارک میں اس کا خیال تشریف لایا جس کی خَثۡعَمِیّہ عورت نے دعوت دی تھی ، تو آپ اس کے پاس تشریف لائے ، تو اس نے کہا کہ اے نوجوان تو نے میرے بعد کیا کیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے آمنہ بنت وہب سے شادی کی اور اس کے پاس تین دن ٹھہرا رہا، تو اس عورت نے کہا کہ خدا کی قسم میں مشکوک عورت نہیں لیکن میں نے تیرے چہرے میں نور دیکھا تو میری خواہش ہوئی کہ وہ نور مجھ میں تشریف لائے لیکن اللہ تعالٰی کو جہاں وہ نور رکھنا محبوب ہوا و ہیں اس نے رکھا۔
(دلائل النبوة لابي نعيم الفصل الثامن في تزويج امه آمنه بنت وہب، ج 1، ص 131 ، دارالنفائس بيروت)
(10)نورِ مصطفٰی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس:
امام قسطلانی رحمة اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں
((في رواية كعب الأحبار: أنه نودى تلك الليلة في السماء وصفاحها، والأرض وبقاعها، أن النورالمكنون الذي منه رسول الله صلى الله تعالٰی عليه وسلم يستقر الليلة في بطن آمنة))
ترجمہ: کعب الاحبار کی روایت میں ہے: ( جس رات نور مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ حضرت آمنہ کے رحم مبارک میں تشریف لایا ) اس رات آسمانوں اور زمین میں ندا کی گئی کہ نور مکنون رات کو اپنی والدہ کے بطن میں مستقر ہو جائے گا۔
(مواہب اللدنيه باب طهارة نسبه صلى الله عليه وسلم ، ج 1 ، ص 72 ، المكتبة التوفيقيه القاهره مصر)
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں
((رَاَتۡ آمِنَةُ بِنۡتُ وَهُبِ أُمُّ النَّبِيِِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنَامِهَا، فَقِيلَ لَهَا: إِنَّكِ قَدْ حَمَلْتِ بِخَيْرٍالْبَرِيَّةِ وَسَيِِّدِ الْعَالَمِينَ، فَإِذَا وَلَدۡتِيهِ فَسَمِِّيهِ أَحْمَدَ وَمُحَمَّدًا) ترجمہ: حضرت آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا ، آپ سے کہا گیا کہ آپ کے بطن میں مخلوق میں سب سے بہتر اور تمام جہانوں کے سردار ہیں ، جب وہ پیدا ہوں تو ان کانام محمد اور احمد رکھنا۔
(دلائل النبوة لابي نعيم الفصل التاسع في ذكر حمل امه ، ج 1 ، ص 136 ، دار النفائس، بيروت)
(11)حضورﷺکی دنیا میں تشریف آوری:
اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے
قرآنِ مجید
فَدۡ جَآءَكُمْ مِِّنَ اللّٰهِ نُورٌ وَّكِتَابٌ مُّبِين
ترجمہ کنز الایمان
بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آیا اور روشن کتاب
(پارہ 6 سورة المائده، آیت 15)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں
(( قَدْ جَآءَكُمْ مِِّنَ اللّٰهِ نُورٌ یَعۡنِی مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰى عَلَيۡهِ وَسَلَّمَ ))
ترجمہ: تمہارے پاس اللہ تعالٰی کی طرف سے نور یعنی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لائے۔
(تفسیر ابن عباس، ج 1، ص 90 ، مطبوعه لبنان)
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ ثقفیّہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں
(( شَهِدۡتُ آمِنَةَ لَمَّا وَلَدَتْ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیۡهِ وَسَلّمَ ، فَلَمَّا ضَرَبَهَا الْمَخَاضُ نَظَرْتُ إِلَى النُّجُومِ تَدَلّٰى، حَتّٰى إِنِِّي أَقُولُ لَتَقَعَنَّ عَلَىَّ، فَلَمَّا وَلَدَتۡ، خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهُ الْبَيْتُ الَّذِي نَحْنُ فِيهِ وَالدَّارُ، فَمَا شَيْءٌ اَنْظُرُ إِلَيْهِ إِلَّا نُورٌ ))
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر میں موجود تھی ، جب آپ کی ولادت قریب ہوئی تو ستارے اتنے قریب ہو گئے کہ میں نے کہا کہ ستارے مجھ پر گر جائیں گے، جب آپ کی ولادت ہوئی تو ایسا نور نکلا جس نے کمرے اور گھر کو بھر دیا نور کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی ۔
(المعجم الكيبر للطبراني ، ج 1 ، ص 147، مكتبه ابن تیمیه ، القاهره)
(12)حضورﷺکی ولادت پر کسرٰی کے محل میں زلزلہ آ گیا:
محدث ابونعیم رحمة اللہ علیہ روایت نقل کرتے ہیں
(( لَمَّا كَانَ لَيْلَةَ وُلِدَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَسَلّمَ ارْتَجَسَ إِيوَانُ كِسْرٰى وَسَقَطَتْ مِنْهُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ شُرَافَةً، وَخَمَدَتْ نَارُ فَارِسَ وَلَمْ تَخۡمَدۡ قَبْلَ ذَالِكَ بِأَلْفِ عَامٍ، وَغَاضَتْ بُحَيْرَةُ سَاوَةَ، وَرَأَى الْمُوبَذَانُ إِبِلًا صِعَابًا تَقُودُ خَيلًا عِرَابًا قَدْ قَطَعَتْ دِجۡلَةَ وَانْتَشَرَتْ في بِلَادِهِ))
ترجمہ: جس رات میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم پیدا ہوئے ، کِسرٰی کے محل میں زلزلہ آگیا اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے، اور فارِس کی آگ بُجھ گئی جبکہ اس سے ایک ہزار(١٠٠٠)سال سے نہ بجھی اور بُحَیرَہ سَاوَہ کا پانی اُتر گیا ، اور مُوبَذان نے خواب میں سرکش اونٹ دیکھے جن کو خالص عربی گھوڑے ہانک رہے تھے انہوں نے دِجۡلَہ عبور کیا اور سب شہروں میں پھیل گئے۔
(دلائل النبوة لابي نعيم الفصل التاسع في ذكر حمل امه ، ج 1 ، ص 138 ، دار النفائس ، بيروت)
تحریر: (گدائے تاج الشریعہ) عبد الوحید قادری، شاہ پور بلگام کرناٹک
9916313403