ماہیتِ انسان میں تکلم وعدمِ تکلمی کے کل چار عناصر ہوتے ہیں جن میں سے دو خاموش مزاجی کے، ایک حق و صدق گوئی کا اور ایک عنصر ایسا ہے جو نمک مرچ لگا کر سچائی بدلنے، حق و راستی کو کذب و افترا سے تبدیل کر جھوٹ کو سچائی بنانے والا ہے میری مشاہدات کی بناء پر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور بھی ہوسکتے ہیں تو یہاں کوئی اعتراض نہ کیا جاوے کہ چار ہی کیوں؟
۱۔ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو ہمہ دم اس کار (صدائےحق بلند کرنے)میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
۲۔ بعضِ کل تو ایسے ہیں جنہیں اپنی آواز بلند کرنے کا ہنر ہی نہیں اسی وجہ سے قاصر الکلامی کی زد میں آجاتے ہیں۔
۳۔ بعضے تو وہ ہیں جو بربنائے خوف و ہراس سکوت و جمود پر قناعت کر جاتے ہیں۔
۴۔ اور بعض تو بڑے ہی خطرناک آستین کے سانپ، دین و مذھب، ضمیر و روح فروشی کر اپنی قوتِ حسیہ اور ماہیتِ انسانیہ کو زندہ درگور کرجاتے ہیں۔
تبصرات
وہ جنہیں ہنر ہی نہیں (خیر وہ تو معذور ہیں)، اور وہ جو خوف و ہراس کی بنیاد پر خامشی کے پتلے اور پتھر کے صنم بن جاتے ہیں، یہ دو عناصر خاموشی کے ہیں ان سے کوئی خطرہ تو نہیں ہوتا البتہ دونوں عناصر میں ایک فرق ہوتا ہے کہ وہ جو خوف و ہراس کی وجہ سے خاموشی اختیار کرتے ہیں وہ بسا اوقات درِ پردہ ممدد و معاون بھی ثابت ہوتے ہیں بر خلاف نا آشناؤں کے اگر ان کا مافی الضمیر انہیں کلام کرنے پر ابھارتا اور جھنجھوڑتا ہے جب بھی عدمِ آشنائی کی بنیاد پر وہ قاصر الکلام ہی رہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی کلام نہیں۔
رہی بات ان سخن دانوں کی جو کہنے کو تو سخنور و متکلم ہوتے ہیں لیکن خلافِ واقع و حقیقت کو واقع و حقیقت میں بدلنے کا ہنر انہیں خوب خوب آتا ہے۔ کچھ کا کچھ کرنا حقیقت سے چشم پوشی کرنا، جھوٹ کو سچائی بنانا، اگر کچھ حد تک سچ بولنا بھی تو نمک، مرچ، مسالا لگا کر بولنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے، اور انہیں قسم کے لوگوں سے مذھب و ملت کا نقصان ہوتا ہے، جتنا یہ آستین میں چھپے دومنھ والے سانپ مذھب و ملت کی پردہ دری کرتے ہیں شاید ہی کوئی غیر اتنا کرے۔
ان کے بالمقابل وہی ایک گروہ صف بستہ نظر آتی ہے جو حق و صداقت کا پیکر ہوا کرتی ہے، ہمہ گام اور ہر لحظہ ان کا کام فقط حق گوئی اور بیباکی ہی ہوتی، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ان کا مشغلہ ہوتا ہے، اپنی پوری طاقت و قوتِ قلم کے ساتھ مفسدین سے مقابلہ آرائی کرتے ہیں، عام ازیں کی وہ درونِ خانہ کے مفسدین ہوں یا بیرونِ خانہ کے ہوں، ایک ہی وقت میں یہ حق گو صفت حضرات دو طرح کے فتنوں سے مزاہمت کرتے ایک تو گھر کے بھیدیوں سے کیوں کی مثل مشہور ہے "گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے” والی اور خارجی دشمنوں سے کیوں کہ انکا دفاع بھی ایک ضروری امر ہے، حاصلِ کلام یہ کہ یہ حضرات ایک ہی وقت دو دشمنوں سے نبردآزما ہونے کی وجہ سے کما حقہ رد و ابطال کا حق ادا نہیں کرپاتے دور حاضر کی بات کررہا ہوں میں جب کہ اس صفت کے حاملین معدودے ہی موجود بالفعل ہیں۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان فتنوں کا انسداد اب تو غیر ممکن ہے لیکن ہاں میری اس تجویز پر اگر عمل کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ حد تک معاملہ برعکس نظر آئے وہ یہ ہے کہ عدمِ تکلمی کے عناصر کو تکلم و گفتار کے عنصر سے تبدیل کردیا جائے وضاحت کئے دیتا ہوں کہ مقدمہ میں جو عناصر عدمِ تکلمی کے شمار کرائے تھے اسی وجہ سے اور ان میں سے ایک جہالت کی بنیاد پر غیر تکلمی کا عنصر تھا اور دوسرا علم کے باوجود خوف و ہراس کی بنیاد پر عدمِ تکلمی کا عنصر تھا، لہذا یہ کیا جائے کہ جہالت والی عنصر کو علم کے عنصر میں بدل دیا جائے تعلیم و تربیت کے ذریعہ اور علم کے باوجود خوف و ہراس والے عنصر کو بدل دیا جائے حق گوئی کے عنصر سے دفعِ خوف و ہراس کے ذریعہ فلہذا ایک اچھی خاصی تعداد حق گفتاروں کی ہوجائے گی اور یہ بھی اپنا قیمتی وقت صرف کریں گے رد و ابطال میں تو ہوسکتا ہے کچھ مفسدات میں کمی آجائے۔
رہی بات گھر کے بھیدیوں اور ضمیر فروشوں کی تو ممکن ہی نہیں کہ وہ جانبِ حق رجوع لائیں لہذا "وماعلیناالاالبالاغ” کے تحت تنبیہ کردی جاوے اگر باز آجائیں تو ماشاءاللہ وگرنہ تو ان سے قطع تعلق اختیار کرلی جائے نیز یہ کہ تحریرا اور تقریرا دونوں شعبوں کا لحاظ کیا جائے کہ تحریر کا تریاق تحریر اور تقریر کا تریاق تقریر بنے "زہر کو زہر ہی کاٹے” والے کنسیپٹ پر عمل درآمد ہوتے ہوئے رہی بات کلام کی تو جس طرح کلام منھ سے کیا جاتا بعینہ اسی طرح قلم بھی قلم کار کی آواز اور اس کا کلامِ مافی الضمیر ہوا کرتا ہے، حاصلِ کلام یہ کہ کلام جس طرح منطبق ہوتا ہے تقریرات پر اسی طرح منطبق ہوتا ہے تحریرات پر بھی تو دونوں رخوں کا خیال کیا جائے یہ ایک تجویز ہے کوئی آزمودہ نسخہ نہیں اور نہ تجربہ اتنا تو ضرور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مطلوب کے حصول کا نوے پرسنٹ چانس تو ہے ہی ورنہ تو ایک مجوزہ ہے پریکٹیکل کا رزلٹ صفر بھی ہوسکتا ہے ممکنات سے ہے وباللہ التوفیق مولی کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حق گفتاری کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی، نیپال
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو