مذہبی مضامین

توسّل اور وسیلہ کی شرعی حیثیت اور اس کی مختلف صورتیں

وسیلہ کی مختلف صورتیں ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور ان کو اختیار کرنا جائز ہے ۔ وسیلہ کی جو صورتیں جائز ہیں ٬ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے اسمائے مبارکہ اور اس کے اسمائے حسنیٰ کو وسیلہ بنایا جائے اور ان کے وسیلے سے دعا کی جائے ۔ کیوں کہ اسما کی کثرت و عظمت مسمّیٰ کی عظمت پر دلالت کرتی ہے ۔ جب نام میں اتنی تاثیر ہے تو ذات میں کتنی تاثیر ہوگی ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے : إنّ لله تِسْعَةً و تِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إلا واحدا مَنْ أَحْصَاهَا دخل الجنة . ( اللہ عز و جل کے نناوے نام ہیں ایک کم سو ٬ جس نے ان کو یاد کر لیا ٬ وہ جنت میں داخل ہوگا ) ۔ اللہ رب العزت کے اسمائے مقدسہ کے وسیلے سے دعا اور وسیلہ کا حکم اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہے : وَ لِلہ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا . ( اور اللہ کے اچھے نام ہیں ٬ پس تم اس کو اس کے اچھے ناموں سے پکارو ) ۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارنا اور ان کے وسیلے سے دعا کرنا ” وسیلہ باسمائے الہٰی ” ہے اور قرآن میں اس کی تعلیم دی گئی ہے ۔ امام قرطبی علیہ الرحمہ مذکورہ آیت کے تحت فرماتے ہیں :

قوله تعالى : ( فَادْعُوهُ بها ) أی اطلبوا منه بأسمائه ، فيُطلب بكل اسم ما يليق به ، تقول : يا رحيم ارحمنی يا حكيم احكم لی ، يا رزاق ارزقنی ، يا هادی اهدنی ، يا فتاح افتح لي ٬ يا تواب تُب علیَّ ….. و ان دعوت بالاسم الاعظم فقلت : يا الله ! فهو متضمن لكل اسم . ولا تقول : يا رزاق اهدنی إلا أن تريد يا رزاق ارزقنی الخير .

یعنی اللہ رب العالمین کو اس کے مقدس ناموں سے پکارو تو اس کے نام سے وہ چیزیں مانگو جو اس کے مناسب ہو ۔ مثلاً : یا رحیم ارحمنی ( اے رحیم ! مجھ پر رحم فرما ) ٬ یا حکیم احکمنی ( اے حکیم ! میرے حق میں فیصلہ فرما ) ٬ یا رزاق ارزقنی ( اے رزّاق ! مجھے رزق عطا فرما ) ٬ یا ھادی اھدنی ( اے ہادی ! مجھے ہدایت دے ) ٬ یا فتّاح افتح لی ( اے فتّاح ! میرے لیے مشکلات کا دروازہ کھول دے ) ٬ یا توّاب تُب علیّ ( اے توّاب ! میری توبہ قبول فرما ) اور اگر اسمِ اعظم ( یعم اسمِ جلالت ” اللہ ” ) سے دعا کرو تو کہو : یا اللہ ! یہ با عظمت نام ( اللہ ) اس کے تمام ناموں کو متضمن و شامل ہے ۔ یا رزّاق اھدنی نہ کہو ( کہ اسمِ رزاق ہدایت کے مناسب نہیں ) ہاں ! اگر اس سے مراد ” ارزقنی الخیر ” ہو تو ایسا کہہ سکتے ہو ۔

( الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ٬ جلد : 9 ٬ ص : 393 ٬ 394 ٬ مطبوعہ : مؤسسۃ الرسالۃ ٬ بیروت )

بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے دعا کے متعلق استفسار کیا تو آپ ﷺ نے اس دعا کی تعلیم فرمائی : اللَّهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا كَثِيرًا وَ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَ ارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ . اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسمائے گرامی ” الغفور ” اور ” الرحیم ” کو وسیلہ بنایا گیا ہے ۔ ( بخاری شریف ٬ کتاب الاذان ٬ ص : 204 ٬ حدیث نمبر : 834 ٬ بیروت )

اللہ رب العزت کی صفات سے وسیلہ :

اللہ رب العزت کے اسمائے مبارکہ کے علاوہ اس کی صفاتِ کاملہ کے ساتھ بھی وسیلہ کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے : اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ وَ قُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِی وَ تَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِی .

اے اللہ ! میں تیرے علمِ غیب اور مخلوق پر تیری قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے ٬ مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم کے مطابق میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے موت دے ۔ اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی دو اہم صفات علم اور قدرت کو وسیلہ بنایا گیا ہے ۔

انبیا و اولیا اور صالحین کا وسیلہ :

وسیلہ کی مذکورہ بالا جائز صورتوں کے علاوہ اس کی ایک صورت اور بھی ہے اور وہ ہے انبیائے کرام علیہم السلام ٬ اولیائے عظام ٬ صالحین ٬ بزرگانِ دین اور اولیائے کاملین رضی اللہ عنہم کا وسیلہ اختیار کرنا اور ان کے وسیلے سے دعا کرنا ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نا بینا شخص کو خود اپنے وسیلے سے دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی ۔ جیسا کہ ترمذی شریف کی اس حدیث سے ظاہر ہے :

عن عثمان بن حنیف أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال : ادع اللہ أن یعافیني قال : إن شئت دعوت و إن شئت صبرت فھو خیر لک ․ قال : فادعہ ، قال : فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوئہ و یدعو بھذا الدعاء : اللھم إني أسألک و أتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة، إني توجھت بک إلی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی ، اللھم فشفعہ فی : قال الترمذی : ھذا حدیث حسن صحیح غریب .

( سنن الترمذی ٬ أحادیث شتی ٬ ص : 818 ٬ حدیث نمبر : 3578 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )

ترجمہ : حضرت عثمان بن حنیف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک نا بینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا : آپ دعا فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عافیت دے ( یعنی میری بینائی واپس کر دے ) آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کرو کہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ۔ اس نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ دعا ہی فرما دیں تو آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے : اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی جو نبیِ رحمت ہیں ٬ ان کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو میری یہ ضرورت پوری کر دے ، اے اللہ ! تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ۔

خلیفۂ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب قحط سالی آتی تو آپ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے توسل سے دعا مانگتے اور کہتے : اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم فتُسْقِيَنَا و إنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا ٬ قال : فَيُسْقَون .

( بخاری شریف ٬ کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ٬ ص : 914 ٬ حدیث نمبر : 3710 ٬ مطبوعہ : دار ابن کثیر ٬ بیروت )

اے اللہ ! ہم تیرے نبی کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اور ان کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کیا کرتے تھے اور تو بارش نازل کر دیا کرتا تھا ، اب تیرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں سیراب کر دیجیے ۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی دعا کا اثر یہ ہوتا کہ بارش ہو جاتی تھی ۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمان فقرا ( صالحین ) کے وسیلے سے دعا فرمایا کرتے تھے ۔ جیسا کہ طَبرانی شریف کی حديث میں ہے : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ وَ يَسْتَنْصِرُ بِصَعَالِيکِ الْمُسْلِمِينَ . حضور سید عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلَّم مسلمان فقرا کے وسیلے سے فتح و نصرت طلب فرماتے تھے ۔ اسی المعجم الکبیر میں ایک روایت ” بصعالیک المسلمين ” کے علاوہ ” بصعالیک المھاجرین ” بھی ہے یعنی حضور نبی کریم ﷺ مہاجرین فقرا کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے ۔

( المعجم الکبیر للطبرانی ، جلد اول ٬ ص : 292 ، حدیث نمبر : 859 ٬ مطبوعہ : مکتبہ ابن تیمیہ ٬ قاہرہ )

اعمالِ صالحہ کے وسیلے سے دعا کرنے اور اس کے جائز ہونے کو مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ بخاری و مسلم سمیت دیگر کتبِ حديث میں اصحابِ غار کے متعلق روایت موجود ہے ٬ جس میں نیک اور صالح اعمال کو وسیلہ بنانے کی بات کہی گئی ہے ۔ اعمالِ صالحہ جن کے مقبولیت کا حال ہمیں معلوم نہیں ٬ جب ان کا وسیلہ جائز ہو سکتا ہے تو اللہ کے نیک بندے جو اس کی بارگاہ میں مقبول ہیں ٬ ان کا وسیلہ کیوں کر جائز نہیں ہو سکتا ہے ۔ علّامہ بدر الدین عینی حنفی قدس سرہ عمدۃ القاری شرح البخاری ( ۸ / ۵۲۹ ) میں فرماتے ہیں : مشکل گھڑی میں اپنے نیک اَعمال کے وسیلے سے دعا کرنا مستحب ہے ۔ امام تقِیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہٖ و سلَّم کے و سیلے سے دعا کرنا جائز و مستحسن ہے ، چاہے آپ کی ولادتِ با سعادت سے قبل ہو ، حیاتِ ظاہری میں ہو یا آپ کے وِصال کے بعد ٬ برزخ میں ہو یا عرصۂ محشر یا جنت میں ٬ ان تمام صورتوں میں آپ ﷺ کا وسیلہ جائز ہے اور ہر ایک سے متعلق خبرِ صحیح وارد ہے ۔ امام تقی الدین سبکی کے الفاظ یہ ہیں :

إنَّ التوسل بالنبی ﷺ جائز فی كل حال قبل خلقه و بعد خلقه فی مدة حياته فی الدنيا و بعد وصالہ فی مدة البرزخ و بعد البعث فی عرصات القيامة و الجنة و هو على ثلاثة أنواع ٬ النوع الأول : أن يتوسل به بمعنى أن طالب الحاجة يسأل الله تعالى بہ أو بجاهہ أو ببركتہ فيجوز ذلك فی الأحوال الثلاثة و قد ورد فی كل منها خبر صحيح .

( شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام ٬ ص : 358 ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )

سلطان الاولیاء ٬ غوث الاعظم حضرت سیدنا محیی الدین عبد القادر جیلانی قدس سرہ فرماتے ہیں : مَنْ تَوَسَّلَ بِیْ اِلَی اللہِ فِیْ حَاجَۃٍ قُضِیَتْ حَاجَتُہ . جو شخص مجھے وسیلہ بنا کر اللہ عَزَّ وَ جَلَّ سے کوئی حاجت طَلَب کرے ٬ اس کی حاجت پوری کی جاتی ہے ۔(نزھۃ الخاطر الفاتر ، ص : 67)

ازقلم: طفیل احمد مصباحی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے