تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
مذہب اسلام میں جہاد در اصل دفاعی نظام کا نام ہے۔اسے ڈیفنس سسٹم(Defence System)سے تعبیر کیا جائے۔
اسلام دین فطرت ہے۔اس کے تمام اصول وضوابط فطرت انسانیہ اور عقل سلیم کے مطابق ہیں۔
جو علما و دانشوران اور وکلا دنیا کے بڑے ممالک کے دفاعی قوانین اور ان کی باریکیوں سے واقف وآشنا ہیں۔وہ ان آیات مقدسہ اور دنیا کے عظیم ممالک کے دفاعی قوانین کا تقابل رقم کریں اور مضامین کو عالمی زبانوں مثلا انگلش,عربی,فرانسیسی ودیگر زبانوں میں شائع کریں۔
دراصل یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جو سلطنت عثمانیہ کے عہد اخیر سے ہی جاری ہے۔اس سازش کا ذکر "ہمفرے کے اعترافات”نامی رسالے میں بھی موجود ہے۔
یہ ایک انگریزی جاسوس "ہمفرے”کے بیانات وانکشافات پر مشتمل کتاب ہے,جسے سلطنت عثمانیہ کی تباہی کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔
جلسوں اور کانفرنسوں میں بھی یہی ذکر کیا جائے کہ ظلم وجبر کے دفاع اور شر وفساد کو دور کرنے کے واسطے جو نظام خداوندی ہے,اسی دفاعی نظام کا نام جہاد ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہیں۔
جہاد بالنفس۔یہ شیطانی وسوسوں اور اس کے شروفساد سے روکنے کے لئے ہے۔
جہاد بالقلم۔یہ فکری ونظریاتی شر وفساد سے اقوام عالم کو محفوظ رکھنے کے لئے ہے۔
جہاد بالسیف۔یہ ظالموں اور جابروں کے شر وفساد سے انسانوں کی حفاظت کے لئے ہے۔
دنیا کا ہر ملک اپنی سرحدوں پر حفاظتی دستے مقرر کرتا ہے۔ہر ملک میں وزارت دفاع اور مستقل دفاعی محکمہ ہوتا ہے۔لاکھوں کی تعداد میں فوجی ہوتے ہیں۔اندرون ملک فتنہ وفساد کی روک تھام کے لئے پولیس کا نظام ہوتا ہے۔یہ سب ڈیفنس اور کنٹرول سسٹم کی لازمی چیزیں ہیں۔
لوگوں کو جہاد اور دہشت گردی کا فرق بتانا ضروری ہے۔
نیز یہ بھی بتانا ہے کہ دہشت گردی میں سب سے اعلی پوزیشن پر یہود و نصاری ہیں۔اس کے ثبوت و شواہد بھی جمع کرنے ہیں۔
جہاد ایک دفاعی نظام ہے اور دہشت گردی اقدامی حرکت ہے۔دفاع اور اقدام میں فرق ہے۔
چوں کہ اقوام عالم کے لئے ڈیفنس کا مفہوم بالکل آسان ترین اور بدیہی ہے,اس لئے لفظ جہاد کی تشریح میں یہ ضرور کہا جائے کہ جہاد ڈیفنس سسٹم کا نام ہے۔یہ اقدامی حرکت نہیں۔