تحریر: محمد مجیب احمد فیضی بلرام پوری
استاذ: دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام
اگر ہم بات کریں موجودہ دور پرفتن کی تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ موجودہ دور میں ہر انسان اپنی ظاہری احوال کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعئ پیہم میں منہمک نظر آتا ہے۔ انسان ظاہری حالت کی بہتری میں شب وروز بڑی تگ ودو کرتا ہے،سوچتا ہے تنزلی ہے تو ترقی کیسے ہوجائے ،ہم پیچھے ہیں تو آگے کیسے بڑھ جائیں کم ہے تو زیادہ کیسے ہوجائے اسی فکر میں دن رات اس قدر مصروف ہوتا ہے کہ اس کو اپنی باطنی سدھار نظر ہی نہیں آتی۔
بلکہ یوں کہا جائے کہ باطنی احوال کی سدھار پر کسی کی نظر ہی نہیں ہوتی۔
غور کریں ! ذرا سوچیں!
ایک وہ بھی دور تھا، ایک وہ بھی زمانہ تھا،جب لوگ ظاہرا ایک دم سادہ ہوتے تھے، باطنا علم عمل کا ٹھٹھا مارتا ہوا سمندر ہوا کرتے تھے،ان کے ظاہر وباطن میں کچھ فرق ہوتا تھا اوران کا باطن ان کے ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بہتر ہوتا تھا۔
لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے لوگوں کے پاس ظاہری طور پر بہت کچھ ہوتا مگر باطنی اعتبار سے وہ مکمل عاری وخالی ہوتے ہیں۔آج اگر ہم اپنے معاشرہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو بڑا افسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں ہمارے معاشرے کا ہر شخص ظاہر بینی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نماز جیسی مہتم بالشان عبادت جو کہ بعد ایمان ایک مسلمان کے لئے سب اہم ہے اس میں بھی ریاء کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ریا،نام ونمود کی عادت اسلام کی نظر میں تو معیوب ہی ہے،عام بشر بھی اسے قلبی انشراح کے ساتھ اچھا نہیں جانتے۔بنی آدم کی جملہ خوبیاں اگرچہ ان میں انسانی کسب کا دخل ہی کیوں نہ ہو در حقیقت رب تعالی کی دین ہیں۔اس وجہ کوئی بھی انسان بڑائی کی غرض یا اظہار بڑکپن کے خاطر جب کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے تو خواہ وہ کام فی الواقع کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو انسانوں کی نظر میں پھسپھسا اور بے مقصد بن کر رہ جاتا ہے۔انسان کی کسی بھی خوبی اور اچھائی وعظمت کا راز اسی میں ہے کہ وہ اسے اللہ کا انعام اعزاز سمجھے نہ کہ اس کو لے کر غرور ونمود کی حدتک پہونچ جائے۔ چنانچہ
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
"اور جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے اس پر اتراؤ نہیں، اللہ تعالی غرور کرنے والوں اور شیخی بازوں سے محبت نہیں کرتا” (الحدید،آیت نمبر: ۲۳)
افسوس! کہ بعضوں کو تو ایسا بھی دیکھا گیا کہ نماز جیسی اہم عبادت، جو کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کے لئے جائز ہی نہیں،وہ اسی کے لئے مخصوص،
ہمارے دین کا ایک مکمل رکن ہے، جہاں اسلام کی بنیاد احادیث کی روشنی میں چند اشیاء پر ہے انہیں میں سے ایک سب سے بلند وبالا عبادت نماز ہے، بغض لوگ پڑھتے اس لئے ہیں کہ لوگ نمازی کہہ کر بلائیں،بیت اللہ شریف جاکر حج فقط اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے نام کے آگے ایک لقب لفظ "حاجی صاحب "کا اضافہ ہوجائے،کسی حاجت مند کی حاجت روائی صرف اس لئےکرتے ہیں کہ لوگ مجھے امیر کبیر سمجھیں،ایسے لوگوں کے لئے اللہ کی پناہ!
حق بیانی سے میری گھبرائیے ہرگز نہ آپ
تھوڑا کڑوا بولتا ہوں پر میں زہریلا نہیں
لغت میں "ریا” کا معنی "دکھاوا” ہے۔
اور اصطلاح میں رب تعالی کی رضا وخوشنودی کے علاوہ، کسی اور ارادے سے عبادت کرنے کا نام ” ریاء "ہے۔
گویا عبادت سے یہ غرض ہو کہ لوگ اس کی عبادت سے کافی متاثر ہوکر اس پر اپنا مال نچھاور کریں اور اس کے عبادت کا خوب خوب چرچا کریں۔ (العیاذ بااللہ)
قرآن مجید میں دکھاوا کرنے والوں کے لئے رب کا شدت بھرا پیغام موجود ہے چنانچہ باری تعالی ارشاد فرماتا ہے:
"اے ایمان والو!!اپنے صدقات باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر اس طرح کی جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہ لائے تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کہ ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑاجس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا” (سورۃ البقر،ترجمہ کنزالایمان)
مفسر قرآن،صدرالافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃاللہ علیہ اس آیت کریمہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
"یعنی جس طرح منافق کو رضائے الہی مقصود نہیں ہوتی ہے وہ اپنال ریاکاری کے لئے خرچ کرکے ضائع کردیتا ہے اس طرح تم احسان جتاکر ایذاء دے کر اپنے صدقات کے اجر کو ضائع نہ کرو، یہ منافق ریاکار کے عمل کی مثال ہے کہ جس طرح پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن بارش سے وہ سب دور ہوجاتی ہے خالی پتھر رہ جاتا ہے یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روز قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیوں کہ رضائے الہی کے لئے نہ تھے۔”
احادیث کریمہ میں ریاکار کی مذمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاء ونمود جیسی مہلک عادت سے بچنے کے لئے منہ پر کسی کی تعریف یا مطلق مبالغہ آمیز تعریف سے منع فرمایا ہے،
ایک بار ایک شخص نے اسی نوعیت کی تعریف ایک شخص کے متعلق کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم نے اسے ہلاک کردیا،تعریف ہی اگر کرنی ہو تو یوں کہو میں اس کو ایسا سمجھتا ہوں۔ (بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:قیامت میں ایسے شخص کے متعلق سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا جو راہ خدا میں شہید ہوا ہوگا،اللہ فرمائے گا:
میں نے تجھے زور آوری بخشی تونے اس سے کون کام انجام دیا؟وہ کہے گا میں تری راہ میں لڑ کر شہید ہوگیا، اللہ تعالی فرمائے گا:توغلط کہتا ہے تونے لڑائی اس لئے لڑی تاکہ لوگ تجھے بہادر کہیں،پھر اس کا حکم ہوگا اور اس زور آور کو منہ کے بل جہنم میں گھسیٹ کر ڈال دیا جائے گا۔
پھر یہی ایک عالم شخص سے سوال ہوگا،
وہ کہے گا میں نے لوگوں کو علم دین سکھایا،اللہ تعالی فرمائے گا:تم جھوٹ کہتے ہوتم نے عالم کہلانے کے لئے یہ سب کچھ کیا،اس طرح اسے بھی گھسیٹ کر منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔—–
پھر ایک مال دار لایا جائے گااس سے بھی سوال ہوگا،وہ کہے گا:میں نے اپنی دولت تری بارگاہ میں خرچ کی،اللہ فرمائے گا:
تم جھوٹ بولتے ہو،تم ایسا اس لئے کیا ہے کہ لوگ تمہیں سخی کہیں،پھر اسے بھی منہ کےبل جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔—— (مسلم)
مذکورہ حدیث مبارکہ سے واضح ہے کہ عمل بظاہر کتنا ہی عظیم الشان ہو لیکن ریا کا کیڑا اس میں داخل ہے تو اس عمل کی کوئی وقعت نہیں، حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔”اور ظاہر ہے کہ ہر آدمی اس کی نیت کے مطابق ہی ثواب ملے گا۔
ایک اور حدیث میں نبی فرماتے ہیں: تمہیں دجال سے بھی زیادہ خطرناک چیز بتاؤں؟صحابہ نے عرض کیا:ضرور یارسول اللہ !آپ نے فرمایا: شرک خفی،یعنی یہ کہ آدمی اس خیال کہ دوسرا اس کو دیکھ رہا ہے نماز کو بڑی آرائش کے ساتھ ادا کرے۔ ( ابن ماجہ )
ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:جس نے دکھلانے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک (اصغر)کیا،اور جس نے دکھلاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔
ایسے ہی ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگوں!شرک اصغر سے بچو!صحابہ نے عرض کیا:یارسول اللہ!
یہ شرک اصغر کیا ہے؟ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ریاء ” ہی تو شرک اصغر ہے۔ (مدارک)
ان احادیث سے صاف صاف اس کی مذمت واضح ہے، ریاء ونمود سے اللہ کا حق فراموش ہوجاتا ہے اور بندہ اپنے نفس کے تابع ہوجاتا ہے اور یہی شرک ہے۔
ملت کے خداموں بالخصوص نوجوانوں کو اپنے جملہ اعمال میں خلوص وللہیت کے ساتھ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئیے کہ رب تعالی اس سے راضی ہو،اس کا کلمہ بلند ہو اور سر بلندی انہیں ہی نصیب ہوتی ہے جو اپنا رشتہ رب سے جوڑتے ہیں،انہیں ریا ونمود کی حاجت نہیں۔دکھاوا ہمیشہ وہ کرتے ہیں جن کا۔عمل خالص نہیں ہوتا۔اللہ تعالی اس بیماری سے ہم سب کو نجات دے اور ہر عمل خیر میں مخلص بنائے۔آمین یارب العالمین بجاہ النبی الکریم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم ۔