کس قدر اونچا ہے رتبہ میرے عالم گیر کا
فیضِ خواجہ سے ہے شہرہ میرے عالم گیر کا
عدل اور انصاف کی گر چاہتے ہو تم مثال
پڑھ لو تم کاشی کا قصہ میرے عالم گیر کا
نام تم جتنا بدل دو فرق کچھ پڑتا نہیں
آج بھی گھر گھر ہے چرچا میرے عالم گیر کا
دو گے نمبر کم یا زیادہ اس سے کیا ہوگا بھلا
کیا بگڑ جائے گا تنکا میرے عالم گیر کا
کہہ دو اے ناصر منیری ٹانڈوی سرکار سے
کم نہ ہوگا تم سے رتبہ میرے عالم گیر کا
کاوش فکر: ناصر منیری