اے ابنِ آدم !
پریشان ہو ؟
مایوس ہو ؟
قنوطیت ہے ؟
محرومیِ امید ہے ؟
یاس و ناامیدی ہے ؟
کیوں ؟ آخر کس لیے ؟
اے اشرف المخلوقات !
کیا یہ مسلکِ توکل ہے ؟
کیا یہ مسلکِ حیات ہے ؟
کیا یہ مسلکِ ریاضت ہے ؟
کیا یہ مسلکِ تصوف ہے ؟
کیا یہ مسلکِ معرفت ہے ؟
کیا یہ مسلکِ عشق ہے ؟
اے احسن المخلوقات !
تجھے نہیں پتہ اس کریم کے بارے میں ؟
جو تیری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔
تو جس کو ستّر ماؤں سے زیادہ عزیز ہے۔
جو تجھے بار بار کہتا ہے میرے بندے تجھ سے
غلطی ہوگئی ؟
بھول ہوگئی ؟
کوئی نہیں !!
آجاؤ !
آجاؤ میرے دربارِ رحمت میں۔
آجاؤ میری پناہ گاہِ کائنات میں۔
آجاؤ میری رحمت تجھے ڈھانپ لے گی۔
سایۂ رحمت ڈال دیا جائے گا۔
اعجاز و اکرام ہو جائیں گے۔
دعائیں سن لی جائیں گی۔
زخم بھر دیے جائیں گے۔
پارہ پارہ دل جوڑ دیا جائے گا۔
‘کُن’ فرما دیا جائے گا۔
اور اے جہاں زاد !
تَیقُّن علی اللہ۔
ایمان باللہ۔
اور دروازۂ صبر و توکل وا رکھو۔
وہ کُن کہے گا اور شبِ غم کی سحر ہو جائے گی۔
وہ کن کہے گا شبِ یاس صبحِ امید لیے آجائے گی۔
وہ کن کہے گا شبِ ہجر نویدِ وصال لے آئے گا۔
وہ کن کہے گا زندگی کی شبِ تاریک شبِ معراج ہو جائے گی۔
وہ کن کہے گا بختِ خوابیدہ امیدوں کا سویرا بن جائے گا۔
وہ کن کہے گا تم گِرتے گِرتے سنبھل جاؤ گے۔
ابن التہذیب
محمد آصفؔ نوری
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی