ملت کی حالت زار پر یہ اشعار نہیں آنسو ہیں جو بے ساختہ نکل پڑے،
اللہ تعالی امت مسلمہ پر رحم فرمائے۔
حالت ہماری زار ہے ، کیسے منائیں عید
دل پر غموں کا بار ہے کیسے منائیں عید
ساری مسرتوں کی ہے بنیاد ، اتحاد
ملت میں انتشار ہے کیسے منائیں عید
اسلام کو مٹانے کی جاری ہیں سازشیں
ظالم کا اقتدار ہے کیسے منائیں عید
بڑھتی ہی جارہی ہیں مسلماں پہ سختیاں
چاروں طرف سے وار ہے کیسے منائیں عید
ہیں اہل حق پہ سازش وظلم وستم کے تیر
جاری لہو کی دھار ہے کیسے منائیں عید
پردہ عِناد کا ہے عدالت کی آنکھ پر
مومن ہیں ، تختِ دار ہے کیسے منائیں عید
الحاد نے بچھادییے ہر سمت اپنے جال
اور نوجواں شکار ہے کیسے منائیں عید
تہذیبِ نو سے دخترِ ملت ہے بے ردا
بے شرمی کا غبار ہے کیسے منائیں عید
اپنے عراق و شام و فلسطیں لہو ہوئے
ملک یمن نَزار ہے کیسے منائیں عید
قبضہ ہے آج قبلۂ اول پہ غیر کا
امت یہ دلفگار ہے کیسے منائیں عید
جو پاسباں حرم کے ہیں غدار دیں ہیں وہ
سب پر یہ آشکار ہے کیسے منائیں عید
عیسائ اور یہودی ہیں قابض حجاز پر
دشمن ہی رازدار ہے ، کیسے منائیں عید
اپنوں کی ہی کمی ہےتو غیروں کو کیا کہیں
دامن ہی تار تار ہے کیسے منائیں عید
یارب تو بھیج کشتئ ملت کا ناخدا
بھاری یہ انتظار ہے ، کیسے منائیں عید
اَسلاف جس کو لائے خزاں سے گزار کر
پَژمُردہ وہ بَہار ہے، کیسے منائیں عید
ملتی تھیں کَل جہاں پہ فریدی ! مسرتیں
اب ظلم کا دیار ہے کیسے منائیں عید
ازقلم: سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی بارہ بنکوی، مسقط عمان
نَزار … کمزور… ناتواں