جو لوگ پیشہ ور مقررین کی غیر سنجیدہ غیر معتبر اور چیخ پکار والی تقریر کا رونا روتے ہیں وہی لوگ ان پیشہ ور مقررین کو پروموٹ بھی کرتے ہیں۔ انہیں کی تاریخ لیتے دیتے ہیں۔ انہیں کو اگے بڑھاتے ہیں۔ پھر ان کی غیر معیاری تقریر کا شکوہ اور شکایت بھی کرتے پھرتے ہیں۔ اور یہ کہتے ہیں کہ مقررین باصلاحیت ہونے چاہیے ، جو لوگ صلاحیت مند ہیں انہیں تقریر کرنی چاہیے، مگر پھر وہی لوگ استعداد اور باصلاحیت علما کی تقریروں کو علمی تقریر کا نام دے کر انہیں تہ خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ نہ ان کو دعوت دی جاتی ہے۔ نہ انہیں بلایا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی تشہیر میں کوئی دلچسپی لی جاتی ہے، بلکہ جلسہ کرانے والے لوگوں کی منشا یہی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو بلایا جائے جن کے نام پر بھیڑ اکٹھا ہو جائے۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے علاقے اور میں سمجھتا ہوں کہ اکثر علاقوں کا ماحول یہی تھا کہ علاقائی علما پیدل یا سائیکل کے ذریعے میلاد کا پروگرام کرنے کے لیے جایا کرتے تھے ۔ اور وہ عوام کے اعمال و عقائد کی اصلاح بھی کرتے تھے۔ وہ بڑا پرسکون اور مفید پروگرام ہوا کرتا تھا، مگر اب وہ کم خرچ والا مفید و مختصر پروگرام بہت ساری رسم و رواج، ڈیکوریشن، سجاوٹ کی وجہ سے بھاری بھرکم خرچ کی شکل اختیار کرتے ہوئے کانفرنس بن گیا۔ اور اب تو کوئی بھی جلسہ کانفرنس سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے نہ ان جلسوں سے خاطر خواہ کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ عوام کی اصلاح ہو پاتی ہے۔
یہ جلسہ کرانے والے اور ان میں پیش پیش رہنے والے علاقے کے ائمہ حضرات بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ باصلاحیت علما آئیں اور اپنی علمی گفتگو سے عوام کی اصلاح کریں بلکہ اگر کبھی بھولے سے بلا بھی لیا تو بعد میں وہی لوگ کہتے ہیں کہ ان کی تقریر تو علمی تقریر تھی ، عوام کے پلے نہیں پڑی۔ اور یہ کہ کر ان کی تقریر کو عملی طور پر مسترد کرنے کے ساتھ ہی عوام کی نظر میں ان کی حیثیت واقعی کو ختم کر دیتے ہیں ۔
میرے عزیز ! آپ جانتے ہیں کہ مریض کے مرض کو ختم کرنے کے لیے دوا کی ضرورت ہے اگر مریض کو مزید مرض میں مبتلا کیا جائے تو وہ شفا یاب نہیں ہوگا ، بلکہ اس کی زندگی تباہ و برباد ہو جائے گی اسی طرح جہالت ایک مرض ہے اور اس کا علاج علم ہے اگر جلسوں کے ذریعے جہالت کے مرض کو دور کرنے کے لیے علمی تقریر نہ کی جائے بلکہ جاہلوں کے مزاج کے مطابق جہالت پر مشتمل کچھ غیر معتبر اور غیر مستند تقریریں کر کے ان کو خوش کر دیا جائے تو ظاہر سی بات ہے کہ جہالت کی بیماری پنپتی رہے گی اور ان کے عقائد و اعمال برباد ہوتے رہیں گے۔ جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر ان کی جہالت کی بیماری کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ علمی تقریر ہی کی ضرورت ہے اور اسی تقریر کا عوام کو عادی بنانا ضروری ہے تاکہ ان کے اعمال اور عقائد کو صحیح طور سے انہیں سمجھایا جا سکے اور ان کو سنجیدگی کا مزاج دے کر انہیں علمی تقریریں سننے کے لیے تیار کیا جا سکے یہ ماحول اگر نہیں بنے گا تو یہ جلسے کانفرنس کی شکل میں ہوتے رہیں گے اور دینی و دنیاوی دونوں دولتیں برباد ہوتی رہیں گیں۔
ترے جلسے ہزاروں ہو رہے ہیں
مگر دیں کی اشاعت کیوں نہیں ہے
محافل کے اضافے ہیں مسلسل
مگر مٹتی جہالت کیوں نہیں ہے
تحریر: محمد کہف الوری مصباحی
09779814516787