دنیا ایک کرہ ہے، اس کو کرۂ ارض بھی کہا جاتا ہے۔ "کرہ” کہتے ہیں گیند کو اور لفظ "کرہ” عربی سے ماخوذ و مستعار ہے اردو زبان میں۔ اردو میں اپنے اصل معنی یعنی گیند کے بطور حقیقت مستعمل ملتا ہے۔ اور مجازا دائرہ کے معنی کو شامل ہے۔ مناسبت من جملہ یہی ان تمام میں کہ بالجملہ سب کے سب یکے بعد دیگرے گول ہوتے ہیں یعنی دنیا بھی گول، گیند بھی گول، اور دائرہ بھی گول ہی ہوا کرتا ہے۔ اور "کرہ” بھی گول اسی مناسبت سے لفظ "کرہ” ان جملہ متنوع اشیاء پر منطبق ہوتا ہے۔
خیر لوگ کہتے ہیں دنیا گول ہے، گول تو ہے اس میں کیا نئی بات ہے۔ کوئی پتے کی بات کرو اور نئی تحقیق و تدبیر پیش کرو جو قابلِ التفات ہو۔ دنیا گول ہے۔ کہتے ہوئے پوری بات سننے کی تلقین کری گئی لوگ خاموش ہوئے اور کلام کا آغاز ہوا۔ پھر اسی جملے سے دنیا گول ہے، سات زمین اور سات آسمان ہیں۔ اور زمین و آسمان کے مابین ایک ثالثی کائنات بھی موجود ہے۔ لوگ اسے کائناتِ جو یعنی فضائی اور خلائی کائنات سے تشبیہ دیتے ہیں۔
اچھا ایک مزے کی بات تو یہ ہے کہ زمین کے اندر ایک مقناطیسی قوت بھی وجود اور اپنا گھر کئے ہوئے ہے۔ سائنسی دنیا میں اسے شاید "گریویٹی” کہا جاتا ہے۔ جب بھی ہم "گریویٹی” کی بابت کوئی کلام چھیڑتے ہیں تو "نیوٹن” جس نے گریویٹی کی کھوج کری تھی اس کا نام بھی مستحضر فی الذہن اور حاشیہ ذہن پر نقش ہوجاتا ہے۔
الحاصل یہ کہ ایک "فارمولہ” کی کھوج کرنے والے کی اتنی اہمیت ہے اور اسحضار اس کو یوں لازم ہے کہ منفک نہیں۔ تو وہ جو ہر شئی کا خالق و مالک اور پوری دنیا کو چلانے والا، پیدا کرنے والا، الغرض جس کی شان "کن فکان” ہے اس کی استحضار کا عالم کیا ہوگا۔ اور اسکی ذات کس قدر اہمیت کی حامل ہوگی۔
وہی شانِ "کن فیکون” کا مالک فرماتا ہے دنیا ایک "متاعِ غرور” ہے۔ یعنی دنیا دھوکے اور سراب کا سودا ہے۔ اس کی نظیر جیسے "ریگستان کی ریگزار میں چمکتا ریتا” کہ دکھائی دور سے پانی دے قریب جاکر دیکھو تو آنکھوں کا دھوکہ۔ دنیا کو بھی اسی منزل میں رکھا گیا۔
دوسری بات کہ دنیا نام ہے متاعِ قلیل اور چند دنوں برتنے کا، گویا وہ ایک سفارت خانہ ہے۔
احباب دنیا آپ نے دنیا کی حقیقت دیکھ لی کیا ہے۔ لہذا گزارش ہے دائمی زندگی کا زخ کریں اور "متاع قلیل” یعنی چند دنوں برتنے کو اپنی منزلِ مقصود نہ بنا لیں۔
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو